کردارکشی کی بدبودار مہم

 محبوب الرحمان تنولی

عمران خان ، فرح گوگی اور پنکی کے نام سے کردارکشی مہم کیسے پھیلائی جارہی ہے؟
میں تفصیلات میں جانے سے قبل سیاق و سباق سے بات آگے بڑھانا چاہتا ہوں تاکہ پڑھنے والوں کو بھی سمجھ آ جائے اور اور گندے دھندے میں ملوث افراد کو بھی باور کرا دیا جائے کہ ایک دن مرنا بھی ہے۔۔ دو چار دن کے فائدہ اور خوشامد کی چادر بچھانے سے پہلے زرا سوچ لیں کہ کہ قبر میں آپ نے اپنا حساب دیناہے ۔۔ کوئی حکمران ۔۔ پارٹی یا رہنما نہیں آئے گا۔۔۔ جو سچ ہے وہ ضرور لکھیں مگر کسی اور کی خاطر کسی پر الزام تراشی کرکے اپنے گناوں کا بوجھ زیاد ہ نہ کریں ۔۔ قبر میں آپ کو ان الفاظ اور دعووں کاجواب دینا پڑے گا۔

خیر میں چھٹی سطر میں پھر ابتدائیہ کی طرف لوٹتا ہوں۔۔ ہوا کچھ یوں میں30اپریل 2022کو آفس میں تھا 8بج کر10منٹ پر مجھے ایک وٹس اپ موصول ہوا۔۔ ساتھ ہی ایک وائس نوٹ بھی۔۔ یہ ہمارے ایک سینئر صحافی دوست کی طرف سے تھا۔۔فائل اوپن کی تواس میں 17آرٹیکلز تھے۔۔۔وائس نوٹ میں ان کو ”زمینی حقائق ڈاٹ کام”میں شائع کرنے کا کہا گیا۔۔ فائل اوپن کی تو سب آرٹیکلز گمنام رائٹرز کے تھے۔۔ نہ کوئی نام ۔۔ نہ تصویر۔۔

میں نے پھر رابطہ کرکے پوچھا کہ یہ کس کے نام سے شائع ہوں گے کوئی نام نہیں ہے رائٹرز کا۔۔۔ جواب ملا کسی بھی نام سے کردیں۔۔ کہا ٹھیک ہے پھر میں آپ کے نام سے شائع کردیتا ہوں۔۔۔ ان کے لہجے میں تشویش کا عنصر نمایاں ہوا۔۔ گویا ہوئے ۔ نا ں نا ں میرا نام نہیں لکھنا ہے۔۔۔ گزارش کی کسی کا نام تو جائے گا ۔۔بولے یار سب انٹرنیز نوجوان ہیں۔۔ میں نے عرض کی بھیا ۔۔۔ انٹرنیز کو عرصہ سے بھگتا رہا ہوں۔۔ یہ تو خواہش مند ہوتے ہیں نام بھی شائع ہو اور تصویر بھی۔۔۔

 

 

میر ی دلیل پر انھوں نے یہ کہہ کر فون بند کیا کہ ٹھیک ہے میں نام بھجواتا ہوں۔۔۔ کچھ دیر بعد دوبارہ وٹس اپ موصول ہوا تو ۔۔ انہی آرٹیکلز پر فرضی سے نام تھے ۔۔ بلکہ ایک ایک نام تین تین آرٹیکلز میں شامل کر لیا گیا۔۔۔ تصویر کا پوچھا تو کہنے لگے اس کی ضرورت نہیں ہے۔۔ آپ کا حکم سرآنکھوں پر۔۔۔ میں بارہ سال سے ویب سائٹ چلا رہا ہوں اور ہمیشہ صحافی دوستوں کے رائٹ اپس کو اولیت بھی دی ہے اور کوئی رابطہ کرے تو مجھے خوشی بھی ہوتی ہے۔۔۔ مصروفیت کے باعث موبائل ٹیبل پر رکھ کر کام پہ جڑ گیا۔۔

رات گھر پہنچ کرکمپیوٹر پر آرٹیکلز کی فائل کھولی تو میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔۔۔نام آرٹیکلز تھا مگر براہ راست سابق وزیراعظم عمران خان ۔ ان کی اہلیہ۔ فرح خان۔۔ عمران خان کی ذاتی زندگی سے متعلق سکینڈلائز کہانیاں تھیں جن کو آرٹیکلز یا انٹرنیز نوجوانوں کے رائٹ اپس بتایاگیا تھا۔۔۔ مجھے یہ بتایا گیا کہ یہ آپ شائع کریں گے تو ان کے ویوز دیکھ کر لکھنے والوں کو پوزیشنز اور انعام دیا جائے گا۔۔
مجھ سے رہا نہ گیا میں نے رات گئے ۔۔ اسی دوست سے پھر رابطہ کیا۔۔ اور معذرت کی کہ عمران خان یا ان کی ذاتی زندگی کے خلاف اس ”بے ہودہ مہم ”کا میں حصہ نہیں بن سکتا۔۔ دوست نے اصرار کیا کہ یہ آزادی اظہار رائے ہے۔۔میں نے کہا تو پھر بھیجو ان انٹرنیز کو میرے پاس ۔۔ میں ان کے نام پوچھ کر شائع کردیتا ہوں۔۔ مگر ایسے میں کسی کو اپنا کندھا استعمال کرکے کسی کی ذاتی زندگی پر حملہ نہیں کرسکتا۔۔
دوست کو اندازہ ہو گیا تھا کہ انھوں نے یہ تیر غلط جگہ آزمایا ہے۔۔ اس لئے زیاد ہ بحث و تکرار نہیں ہوئی۔۔

میں اس صحافی دوست کو قصور وار نہیں ٹھہراتا ۔۔ ہو سکتا ہے اسے کسی نے مس گائیڈ کیا ہو۔۔ اس لئے میں نام لینے سے بھی گریزاں ہوں۔۔
ان آرٹیکلز کو لے کر میں پہلے دن ہی نیوز فائل کردیتا مگر میں نے ان انٹرنیز لکھاریوں کے آلودہ مضامین کسی اور جگہ شائع ہونے کا انتظار کیا۔۔ کہ ظاہر ہے وہ نام بدلیں گے ۔۔ تحریر تو وہی رہے گی۔۔پھر ایسا ہی ہوا کہ۔ پراپیگنڈا کا زہرذرائع ابلاغ میں پھیلانا شروع کردیاگیا۔۔میرے پاس جو تحریر،محمد حسین آزاد ، کے نام سے آئی ۔۔ عنوان تھا میں کسی سے بلیک میل نہیں ہوں گا مگر۔اسی دن وہ آرٹیکل جاوید چوہدری صاحب کی ویب سائٹ پر نیوز ڈیسک کے نام سے شائع ہوگیا۔

خبر کی حد تک کریڈٹ لائن میں نیوز ڈیسک اس لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ وہ کسی خبر کا ترجمہ ہوتا ہے ، کوئی انٹرنیشنل یا نیشنل خبر جو رپورٹرز یا نمائندگان فائل نہیں کرتے ۔۔ نیوز والے کہیں سے لے کر نیوز ڈیسک کے نام سے فائل کرلیتے ہیں۔۔ مگر آرٹیکلز پہ نیوز ڈیسک۔۔سمجھ نہیں آیا۔۔ اگر یہ کالم جاوید چوہدری صاحب کا تھا اور کسی نے اس سے آرٹیکل بنا لیا تو تب بھی ان کی اپنی ویب سائٹ پر ان کے نام سے بھی شائع ہو سکتا تھا۔۔ یا پھر کریڈٹ دے کر جیسے بشکریہ مہمان کالمز چھپتے ہیں۔مگر میں الزام نہیں لگاتا کہ یہ سپانسرڈ آرٹیکل تھا۔یہی آرٹیکل یکم مئی کو قدرت روزنامہ میں بھی شائع ہوا۔۔

متذکرہ گمنام اسائمنٹ میں ایک اور تحریر موصول ہوئی۔۔ایمانداروں کی جماعت فرح خان گوگی کے معاملے میں خاموش کیوں ؟
یہی مکمل تحریر اے حنان ( صحافی ) کے نام اور” بشریٰ بی بی کے دوست فرح کے اثاثوں کی تفصیلات ” کے عنوان سے سات دن قبل سماج اردو ڈاٹ کام میں شائع ہوچکی تھی۔۔ایک اور تحریر جو کہ بی بی سی اردو نے 28اپریل کو اپ ڈیٹ کی تھی۔اس کی ہیڈ لائن ۔فرح خان ، عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوست کون ہیں؟نیب ان کے خلاف تحقیقات کیوں کررہا ہے؟رائٹر ترہب اصغر ۔۔ زمینی حقائق کو یکم مئی کوانٹرنی کے نام سے موصول ہوئی۔۔ عنوان تھا ۔۔ اور گوگی پھنس گئی۔۔۔اس پہ لکھاری عارف ملک کو بنایا گیا۔یہی رائٹ اپ حسن نثار ڈاٹ پی کے پر اسپیشل سٹوریز کے نام سے فائر کیا گیا۔

 

 

پڑھتا جا شرماتا جا۔۔واردات ختم نہیں ہوئی ۔۔ گوگی کا خان: 100بار اعوذ باللہ پڑھیں۔۔عنوان تھا ہمیں یہ ابوالمیلاد نام سے آرٹیکل بھیجا گیا۔۔یہ بھی کسی انٹرنی کے نام سے ارسال شدہ ہے۔۔یہ دو دن بعد، اختر سردارڈاٹ کام پر بغیر کسی نام کے شائع ہو گیا۔۔اس کا عنوان بھی تبدیل نہیں ہوا۔۔حسن نثار ڈاٹ پی کے نے بھی ۔۔ ہو بہو۔ چسپاں کردیا۔۔انٹرنیز کے نام سے جو یہ ”گمنام مہم”چلی ہوئی ہے ۔۔ ان آرٹیکلز نے ابھی مزید بے نقاب ہونا ہے ۔ کم از کم میں تو بالکل بھی نہیں چاوں گا کہ میرا لکھا گیا کالم کوئی ویب سائٹ یا اخبار لفٹ کرے اور میرا نام تبدیل کرکے شائع کردے۔۔ ہاں کریڈٹ دے کر کالمز لفٹ کرنا ایک مروجہ اصول ہے جس میں پتہ ہوتا ہے یہ تحریر کس کی ہے۔

ہمارے ملک کی گندی سیاست ذاتیات پہ حملے کرنا ہے۔۔ جب کسی کا ویک پوائنٹ نہ ملے تو جس کا دل چائے نام جوڑ دو۔۔ کہانیاں گھڑو چھاپو ۔۔ بدنام کرو۔۔ آج تک پاکستان میں شایدہی جھوٹ پر کسی کو سزا ملی ہو۔۔لوٹا کریسی اور فلوکراسنگ کے پیچھے بھی یہی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔۔ ایسے کرپٹ لوگوں کی ساری وارداتوں سے فائلیں بھری ہوتی ہیں۔۔فیصلے کے وقت فائل سامنے رکھو اور مرضی ہے جدھر دھکیل دو بھیڑ بکری کی طرح۔۔ ملک میں ڈھائی سے چار سو تک ایسے مہرے ہیں جو سیاست کرتے ہیں اور استعمال ہوتے ہیں۔۔ سب کو پتہ بھی ان کے ماضی ، حال اور مستقبل کا مگر ان پر الیکٹیلز کی مہرثبت ہوتی ہے۔۔ مگر چائنہ کے سامان کی طرح گارنٹی نہیں ہوتی۔

کردار کشی کی یہ مہم کون چلا رہا ہے؟ مقاصد کیا ہیں؟ ہدف کیا ہے؟ اس کا پتہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔۔ صرف ایک ہفتہ میں پورا نیٹ ورک پکڑا جاسکتاہے۔۔ بپیکاایکٹ ۔۔ کے خلاف اتنا شور کیوں مچا؟ کیوں ختم ہوا؟ ایسی ہی مہمات کی تکمیل کیلئے۔۔ سچ لکھنے والے کا پیکا ایکٹ کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔۔ مگر سچ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں قانون کاالٹا استعمال ہوتا ہے۔۔ ہلمٹ پہننا ضروری ہے تو پولیس والے بھائی ۔۔سارے کام چھوڑ کر ہلمٹ چیکنگ پر لگ گئے۔۔ پتہ چلا پانچ سو چالان بتا کردو سو نقد وصولی۔۔یہی حال باقی قوانین کے ہیں۔

کب تک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی مہمات میں ویڈیوز، کردار کشی کی کہانیاں۔ آڈیو ٹیپس اور دیگر گھناونے حربے آزمائے جائیں گے۔۔اور اس مہم میں پیش پیش کون سی شخصیات اور سیاسی جماعتیں ہیں؟ ذرائع ابلاغ کو بھی احتساب کا ترازو ہاتھ میں پکڑنا چایئے۔۔ باقیوں کی طرح ہم بھی یہ من گھڑت کہانیاں چھاپ سکتے تھے۔۔ مگر جونہی” بو” محسوس کی ۔۔قبل ازوقت مواد روک لیا۔۔ اس پٹاری میں17آرٹیکلز ۔۔ باالفاظ دیگر ان گائیڈڈ میزائل موجود ہیں۔۔ اپنی حد تک ڈی فیوزڈ کردیئے۔۔جو لوگوں کی جنگ میں ایندھن بننا چاہیں ان کی مرضی ۔۔ ہم تو ایسی گمنام فائرنگ کا حصہ نہیں بن سکتے۔

Comments are closed.