کراچی یونیورسٹی کی خاتون خود کش بمبار سے متعلق سنسنی خیز انکشافات
کراچی (ویب ڈیسک) کراچی یونیورسٹی کی خاتون خود کش بمبار سے متعلق سنسنی خیز انکشافات سامنے آ گئے، خود کش بلوچ خاتون لفٹ لے کر آئی، شاران بلوچ لفٹ لے کر جائے وقوع تک پہنچی تھی، خود کش حملہ کے دس منٹ بعد بیرون ملک سے اس کے ٹوئٹر اکائنٹ سے ٹویٹ کیا گیا۔
آخری دنوں میں اپنے ہی شوہر سے دیور کے گھر میں ملاقاتیں کرتی رہی۔۔خاوند کے سہولت کار ہونے کا خدشہ ہے، ابتدائی تفتیش کئی انکشافات نے واردات کا سرا ملنے کی امید روشن کردی۔
پڑھے لکھے خاندان کی ایم ایڈ سانئس ٹیچر شاران بلوچ زمانہ طالب علمی میں کالعدم تنظیم کی ہم خیال بنی تھی، تیس سالہ شاری بلوچ تربت میں نظرآباد کی رہائشی سرکاری سکول میں سائنس ٹیچر تھی.
شوہر ہیبتان بشیر ڈاکٹر ہیں بچوں کے نام 8 سالہ ماہ روش اور 4 سالہ میر حسن بتائے گئے ہیں۔خاندان پر ریاست مخالف نظریات کا کوئی الزام نہیں، خود کش بمبار کو کس نے استعمال کیا، تحقیقات میں بہت سے پہلووں کے پردے چاک کرنا باقی ہیں۔
دہشتگرد حملہ دو بج کر چھ منٹ پر ہوا۔شاران کے ٹوئٹر اکاونٹ سےالوداعی پیغام ٹویٹ دو بج کر دس منٹ پر وائرل ہوا، براہوی زبان میں لکھا تھا، رخصت اف اوران سنگت، جس کا اردو ترجمہ ہے، وہ جا رہی ہیں، مگر یہ سنگت چلتی رہے گی۔
ٹوئٹر پیغام پر ردعمل میں بعض لوگوں نے یہ رائے قائم کی کہ شاران بلوچ کے کا کوئی رشتہ دار لاپتہ ہوا ہے، نجی ویب سائٹ پر خود کش بمبار کے بیرون ملک مقیم ایک رشتہ دار نے اس تاثر کی تردید کی ہے ۔
اس کا کہنا ہے کہ شاران کے سارے قریبی رشتہ دار ذمہ دار عہدوں پر ہیں، کوئی لاپتہ نہیں ہوا، بڑی واردات کی وجہ سے میڈیا سے دور ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ شاری بلوچ روزانہ کی بنیاد پر اپنے دیور کے ہاں شوہر سے ملتی تھی، ڈاکٹر ہیبتان بشیر بلوچ کئی ماہ سے کراچی کے نجی ہوٹل میں مقیم تھا اور شبہ ہے کہ ہیبتان بشیر بلوچ دھماکے میں سہولت کار ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر ہیبتان بشیر بلوچ نے حملے سے ایک روز قبل ہوٹل چھوڑا اور حملے میں مقامی سہولت کاروں کو بھی استعمال کیا گیا، تحقیقات کا عمل جاری ہے مزید صورتحال چند روز تک واضح ہو جائے گی.
Comments are closed.