سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی پالیسیوں پر عمل کیوں کرتی ہیں؟

عارفہ نور

دوہزار سترہ میں جب نواز شریف نااہل ہوئے اور ان کی جگہ شاہد خاقان عباسی وزیرِاعظم بنے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) حکومت کی معاشی پالیسی میں کچھ تبدیلی آئی۔ وزارتِ خزانہ میں ہونے والی تبدیلی کی وجہ سے روپے کو ڈالر کے مقابلے میں مستحکم رکھنے کی پالیسی پر دوبارہ سوچ بچار کیا گیا۔ اس کے بعد روپے کی قدر میں کمی ہونے لگی اور ڈالر کی قدر میں اضافہ ہونے لگا۔

اس فیصلے کو پارٹی میں بھی نہیں سراہا گیا۔ سابق وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار تو کُھل کر اس پر تنقید کررہے تھے جس کی وجہ سے پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے لیے اپنے فیصلے کا دفاع کرنا مشکل ہوتا جارہا تھا۔ یہ بحث انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت آنے تک بھی جاری رہی۔

ملک کی معیشت چلانے اور روپے کو مستحکم رکھنے کے حوالے سے پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) پر شدید تنقید کی۔ لیکن اس سارے شور شرابے میں سابق حکمران جماعت کے اندر سے بھی کچھ دبی دبی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ یہ ان حوصلہ مند اور ذہین لوگوں کی آوازیں تھیں جو اس بات کو قبول کررہے تھے کہ ان کی جماعت سے معیشت، ٹکٹ دینے اور دیگر حوالوں سے غلطیاں ہوئی ہیں۔

اس کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے اپنی توپوں کا رخ مسلم لیگ (ن) کی طرف کرلیا۔ حکومت کی جانب سے یہی بیانیہ دہرایا جارہا تھا کہ ڈالر کی قدر کو بڑھنے نہ دینے اور اس کے برآمدات اور ادائیگیوں کے توازن پر پڑنے والے اثرات کیا تھے۔ اس کے بعد رانا ثنااللہ، خواجہ آصف اور احسن اقبال سمیت جماعت کی تقریباً پوری قیادت پر بدعنوانی کے مقدمے قائم ہوئے اور انہیں گرفتار کیا گیا۔

یوں مسلم لیگ (ن) نے دفاعی حکمتِ عملی اختیار کرلی۔ وہی لوگ جو سوچ رہے تھے کہ کیا ان کی جماعت بھی معاملات کو مختلف طرح سے چلاسکتی تھی وہ بھی اب اپنی جماعت کے ہر فیصلے اور پالیسی کا دفاع کرنے لگے تھے۔ اس بحث میں اختلاف کی کوئی جگہ نہیں تھے۔

یہ ردِعمل سمجھ بھی آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو جس قسم کے عتاب کا سامنا کرنا پڑا تھا ویسی صورتحال میں کون ہوگا جو اپنے گریبان میں جھانکنے کی بات کرے گا۔ وہ تو بس انکوائریوں، تحقیقات اور مقدمات سے بچنا چاہتے تھے۔ 2018ء انتخابات کے 2 سال بعد مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے عوام کو درپیش مشکلات کے حوالے سے کہا کہ ان کی حکومت نے ڈالر کی قیمت کو کم رکھ کر درست کام کیا کیونکہ اس طرح مہنگائی کا خاتمہ ہوا۔

اس بیان کو بھولنا بہت مشکل ہے۔ کوئی ایسا شخص جو اس پالیسی کے نقصانات سے آگاہ تھا وہ اب اس کے برعکس بات کیوں کرے گا؟ لیکن اس تبدیلی سے ہماری سیاست کے ایک اہم مسئلے کی نشاندہی ہوتی ہے، اور وہ یہ کہ یہ سیاسی جماعتوں میں کسی قسم کی اصلاح کرنے یا انہیں اپنے گریبان میں جھانکنے نہیں دیتی۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ اس کی ایک وجہ تو ظاہر ہے کہ مظلومیت ہے۔ لیکن دوسری وجہ یہ ہے کہ اب مسلم لیگ (ن) کو اپنی معاشی پالیسی کی قیمت ادا نہیں کرنی تھی۔ مسلم لیگ (ن) سمجھتی تھی کہ اسے انتخابات میں جیت سے محروم کیا گیا ہے یوں وہ پی ٹی آئی کو معاشی بحران سے نمٹتے ہوئے دیکھتی رہی اور یہ گمان کرتی رہی کہ اگر (ن) لیگ کی حکومت ہوتی تو شاید حالات بہتر ہوتے۔

مسلم لیگ (ن) کے اس دعوے کو کہ وہ حالات سے بہتر طور پر نمٹ سکتے تھے، اس وجہ سے چیلنج نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کا پتا لگانا ہی ممکن نہیں۔ نتیجے کے طور پر مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنی توپوں کا رخ پی ٹی آئی حکومت کی جانب کرکے آئی ایم ایف شرائط، مہنگائی اور دیگر معاملات پر حکومت کو قصور وار ٹھہرایا۔ پی ٹی آئی نے ان سب چیزوں کا ملبہ مسلم لیگ (ن) پر ڈال دیا اور یوں اصل مسئلہ وہیں کا وہیں رہا۔

ماضی قریب کے ان طویل (اور شاید بور کردینے والے) واقعات کا مقصد یہ بتانا ہے کہ انتخابات کے ذریعے سیاسی جماعتیں خود کو اس خود شناسی سے دُور رکھتی ہیں جو طویل مدتی پالیسی سازی کے لیے ضروری ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) 2018ء کے انتخابات جیت جاتی اور اسے اپنے ہی پیدا کیے ہوئے معاشی مسائل سے نمٹنا پڑتا تو شاید اسے اندازہ ہوتا کہ قلیل مدتی پالیسی سازی کا کیا نقصان ہوتا ہے۔

ووٹروں کو بھی اس بات کا اندازہ اس وقت ہوتا جب مسلم لیگ (ن) بھی کچھ اسی قسم کی پالیسیاں اختیار کررہی ہوتی جیسی پی ٹی آئی نے کی ہیں۔ لیکن ایسا نہ کبھی ہونا تھا اور نہ ہوا۔ شاید اس وقت ہم جس معاشی پستی میں ہیں اس کی وجہ بھی یہی ہے۔

شاید اب بھی حالات کچھ اسی طرح رہیں۔ اگر عمران خان کو عدم اعتماد میں شکست ہوجاتی ہے تو انہیں حال ہی میں پیٹرول کی قیمتیں کم کرنے کے فیصلے کی قیمت ادا نہیں کرنی پڑے گی۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ اس کی سیاسی قیمت کوئی اور ادا کرے گا اور خان صاحب اس بات کا فائدہ اٹھائیں گے کہ انہوں نے ریلیف فراہم کیا اور ان کے مخالفین نے کس طرح وہ ریلیف واپس لے لیا۔

کسی رکاوٹ کے بغیر ہونے والی سیاسی تبدیلی کسی حد تک خود شناسی اور اصلاح کا موقع فراہم کرتی ہے جو پھر پالیسی سازی (اور شاید اتفاق رائے میں بھی) ڈھل جاتی ہے۔ لیکن اگر یہ منتقلی بزور قوت اور انتخابات کے علاوہ کسی اور صورت سے ہو، جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں، تو پھر سیاسی جماعتیں صرف یہی سیکھتی ہیں کہ مقتدر حلقوں کے ساتھ کس طرح کے تعلقات رکھے جائیں۔ انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ اگر غلط فیصلوں کی ذمہ داری بھی اسی جماعت پر آجائے تو وہ قلیل مدتی فیصلے بھی انہیں انتخابی شکست سے نہیں بچا سکتے۔

یہی وجہ ہے کہ اتفاق رائے (میثاق معیشت کے ضمن میں تو یہ بس ایک خواب ہی ہے) ہمارے لیے خواب کیوں ہے۔ اس قسم کا اتفاق رائے اسی وقت پیدا ہوسکتا ہے جب معاشی عوامل کو اقتدار میں آنے کے لیے ضروری سمجھا جائے گا۔ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت تمام جماعتوں کا اتفاق صرف اس بات پر ہے کہ اقتدار میں آنے کے لیے انہیں صرف ان کے ساتھ معاملات طے کرنے ہیں جن کا سب کو علم ہے۔ اور اگر وہ اقتدار کھو بھی دیتے ہیں تو اس میں ان کی کارکردگی کا بہت کم ہی عمل دخل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام جماعتیں اسی پالیسی کو لے کر چلتی ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی ہوتی ہے۔ تاہم انہوں نے پالیسی سازی کے حوالے سے اب تک کچھ زیادہ نہیں سیکھا ہے کیونکہ یہاں سیاسی تبدیلیاں معاشی پالیسیوں کے حوالے سے کوئی سبق نہیں دیتیں۔

شاید اس وجہ سے بھی سیاسی جماعتیں معاشی مسائل سے نمٹنے کے بارے میں اس قدر ابہام کا شکار ہیں۔ ہمارے پاس ہر معاشی مسئلے کا یہی حل ہے کہ برآمدات بڑھائی جائیں۔ ہم اخراجات کم کرنے، ریاستی ملکیت میں موجود اداروں کے انتظام اور آمدن میں اضافے پر بالکل توجہ نہیں دیتے اور اس کی وجہ ظاہر ہے۔ ہم اپنے ناقص سیاسی نظام کی جو قیمت ادا کرتے ہیں وہ ہمارے گمان سے کہیں زیادہ ہے۔
(بشکریہ ڈان نیوز)

Comments are closed.