عمران خان نے کہاں سب کو پیچھے چھوڑا
انصار عباسی
سیاست سے اختلاف ضرور کریں لیکن اگر کوئی اچھا کام کرے تو اُس کی تعریف کیوں نہ کی جائے؟ اصولاً تو ہمیں سیاست میں اندھی تقلید سے بچنا چاہیے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ جو جس جماعت کا ہے اُس کے لیے اپنے رہنما کی ہر بات، چاہے وہ غلط ہو یا ٹھیک، کا دفاع کرنا گویا فرض سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ایسے کام کو ٹھیک ثابت کرنے کے لیے ہزارہا توجیہات اور بہانے تراشے جاتے ہیں۔
اسی طرح اگر سیاسی مخالف کوئی اچھا کام یا اچھی بات کرے تو اُس کام کی کسی لحاظ سے بھی تعریف نہیں کرنی۔ اگر تحریک انصاف، ن لیگ یا پیپلزپارٹی کے رہنما اور اُن کے ووٹر، سپورٹر ایسا کریں تو حیرانی کی بات نہیں لیکن اگر جماعت اسلامی جیسی جماعت اور محترم سراج الحق جیسے رہنما بھی اپنے مخالف کے کسی اچھے اقدام کی تعریف اور حمایت نہ کریں تو یہ افسوس کی بات ہے۔
خصوصاً معاملہ اگر اسلام، معاشرے کی بہتری اور تربیت کا ہو تو پھر سیاسی اختلافات کو بھلا کر سب کو ایسے کام کو سپورٹ کرنا چاہیے۔ عمران خان حکومت کی معاشی پالیسیوں، خراب طرزِ حکمرانی، امتیازی احتساب وغیرہ سے ضرور اختلاف کریں لیکن اگر موجودہ حکومت نے معاشرے کو سدھارنے اور اس کی اسلامی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے کوئی ایسے اقدام کیے ہیں جو تاریخی ہیں تو اُن کی حمایت اور تعریف میں کنجوسی کیوں کی جاتی ہے؟
ویسے ہی یہاں ایک بااثر طبقہ پاکستان کو اسلام سے دورکرنے اور لبرل ازم اور سیکولر ازم کے نام پر مغربی و بھارتی کلچر کے فروغ کے لیے بہت فعال ہے۔ ایسے میں اگر کسی بھی سیاسی جماعت یا حکومت کے ایسے اقدامات جو پاکستان کی اسلامی اساس کو مضبوط بنانے، یہاں رہنے والے مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے اور معاشرے کی کردار سازی کے لیے ضروری ہیں.
اُن کی حمایت اور تعریف نہ کی جائے گی تو اس سے وہ طبقہ مضبوط ہوگا جو ایسے اقدامات کی مخالفت میں پہلے ہی بہت آگے نکل چکا اور میڈیا کی حمایت سے ہر اسلامی اقدام کو متنازع بنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔پاکستان کے تعلیمی نصاب میں قرآن و سنت کو شامل کرنا بہت بڑا اقدام ہے جس کی حمایت سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر سب کو کرنی چاہیے۔
پردے کے حق میں اور فحاشی کے خلاف وزیر اعظم عمران خان بات کرتے ہیں تو اُن کے روشن خیال وزرا تک اُن کی حمایت نہیں کرتے جبکہ میڈیا اُن کا مذاق اُڑاتا ہے۔ ان معاملات میں سیاسی مخالف بھی یا تو خاموش رہتے ہیں یا میڈیا کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ مجھے حیرانی ہے کہ سراج الحق صاحب بھی آج تک ان معاملات میں وزیراعظم کی حمایت میں نہیں بولے۔
ہماری قوم کی معاشرتی اوراخلاقی گراوٹ کو روکنے اور معاشرہ کی کردار سازی اور افراد کو بہتر انسان اور اچھا مسلمان بنانے کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی ذاتی کوششوں سے رحمت للعالمینؐ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس اتھارٹی کے مینڈیٹ کو اگر دیکھا جائے تو پاکستانی قوم کی اسلامی بنیادوں پر تربیت کے لیے یہ ایک انقلابی قدم ہے جس کی سپورٹ کرنا ہم سب کا فرض ہے۔
پہلے اس اتھارٹی کے لیے جس سربراہ کو مقرر کیا گیا اُن کو کچھ وجوہات کی وجہ سے بدل دیا گیا لیکن اب قابل احترام ڈاکٹر انیس احمد کو اس اتھارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیاہے جو بہت خوش آئند فیصلہ ہے۔ ڈاکٹر انیس کو اُن کی تعلیمی خدمات اور اسلام پسندی کی وجہ سے سب جانتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بڑی مشکل سے اس ذمہ داری کو لینے کے لیے راضی ہوئے۔
وہ اس ذمہ داری کے لیے حکومت سے کوئی تنخواہ بھی نہیں لیں گے۔ ڈاکٹر صاحب اتھارٹی کے مینڈیٹ کو سامنے رکھتے ہوے اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرہ کی کردار سازی، بہتر معاشرتی اقدار،تعلیم و تربیت، انسانی حقوق، بچوں، عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق، مذہبی ہم آہنگی وغیرہ کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں۔ اس عظیم کام کے لیے سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی حکومت اور اتھارٹی کو مکمل سپورٹ کرنا چاہیے۔
یہ وہ کام ہیں جو عمران خان کو دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی ہو، کسی کی بھی حکومت ہو، اچھے کام کی تعریف اور بُرائی کی مخالفت کرنی چاہیے۔ جب عمران خان اسلام کے حق میں کوئی بات کرتے ہیں اور عملی طور پر بھی کوئی بہتر قدم اُٹھاتے ہیں تو اُس پر بھی مخالفت برائے مخالفت کے اصول پر اُن پر تنقید کرنا کہ عمران خان تو اسلام کا نام استعمال کر رہے ہیں.
چچچچ گاُن کو اُن کا ماضی یاد دلانا، یہ کہنا کہ اُن کے اپنے عمل ٹھیک نہیں یا وہ کیا کیا غلط کرتے رہے اور کیا کیا غلط کر رہے ہیں ، یہ سب میری نظر میں قابلِ افسوس ہے۔ عمران خان ہوں یا کوئی اور اگر وہ اچھا کام کرےتو اُن کو سپورٹ کریں، غلط کام کو ضرور غلط کہیں۔ اندھی تقلید سے بچیں اور مخالفت میں صحیح اور غلط کی تمیز کو مت بھولیں.
Comments are closed.