حافظ افصل بٹ صاحب راستہ نکالیں
محبوب الرحمان تنولی
نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے ادھورے انتخابات کے بعد جڑواں شہروں کے صحافیوں میں تقسیم ہوئی اب یہ کدورتیں اور مسافتیں بڑھ رہی ہیں۔یہ صورتحال ظاہر ہے ہر زی شعور صحافی کیلئے تکلیف دہ ہے۔۔ہم پہلے ہی پانچ پی ایف یو جیز اور اتنی ہی آر آئی یو جیز میں تقسیم تھے۔۔اوپر سے ذیلی تنظیموں کی بھر مار ہے۔۔پارلیمنٹ، عدالتیں، جرائم ، تعلیم ، سپورٹس ، ڈیسک سمیت جتنی رپورٹنگ بیٹس ہیں سب کی الگ الگ تنظیمی باڈیاں کھڑی ہو گئی ہیں۔
صحافی اب علاقائی تنظیموں میں بھی منقسم ہیں نام لکھنے کی ضرورت نہیں ہے سب جانتے ہیں راولپنڈی اسلام آباد میں کتنی صحافی تنظیمیں ہیں اسی طرح غیر صحافی ورکرز بھی اسی وباء کا شکار ہیں۔۔ بدقسمتی سے غیر صحافیوں کی تنظیموں میں صحافیوں کی شمولیت سے بھی انھیں مزید نقصان ہوا ہے۔۔ دو دہائیاں پچھے چلے جائیں تو صحافیوں کی دھڑا بندیا ں اتنی نہیں تھیں جتنی اب ہیں۔۔ برنا اور دستور کی شکل میں دو گروپ صرف انتخابات میں آمنے سامنے ہوتے تھے۔
صحافیوں کی اس تقسیم کا فائدہ میڈیا مالکان نے اٹھایا۔۔حکومتوں نے اس کو مزید ہوا دی۔۔بعض اداروں کو بھی یہ تقسیم راس آئی ہے کیونکہ اب صحافیوں کا کسی ایک نقطہ پر جمع ہونا نا ممکن ہو گیاہے۔۔بدقسمتی اس حد تک ہے کہ کوئی ایک گروپ کسی میڈیا ہاوس کے خلاف احتجاج کرتا ہے تو دوسرا گروپ وہاں اظہار یکجہتی کیلئے پہنچ جاتاہے۔۔پہلے صحافی انتقامی کارروائی کا نشانہ بنیں تو سب اس کے حمایت کرتے اور اکٹھے ہو جاتے تھے۔
کسی صحافی کے خلاف مقدمہ بن جانا ایک بڑی خبر ہوتی تھی اور پشاور سے کراچی تک صحافی حرکت میں آ جاتے تھے۔اب ایسا ہے کہ خود صحافی ہی ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔۔میں گزشتہ تقریباً تین داہائیوں سے راولپنڈی اسلام آباد میں جرنلزم سے وابستہ بھی ہوں اور صحافیوں کی سیاسی سرگرمیوں میں بھی شامل رہا ہوں مگر پہلی بار ہے جب اپنی برداری میں اتنے ذہنی فاصلے دیکھ رہا ہوں ، یقینا یہ تلخ حالات دیکھ کر کئی اور دوستوں کی طرح میں بھی رنجیدہ ہوں۔
گروپس کے لیڈرز اس بات سے خود بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ لوگ جب اپنی اپنی تنظیموں کی نمائندگی کرتے ہوئے ارباب اختیار ، اداروں کے سربراہوں یا اہم شخصیات سے ملتے ہیں۔۔ کسی کام کے سلسلہ میں ۔۔ کسی کارکن کے مسلہ کے حل کیلئے ۔ یا فنڈنگ کے حصول کی خاطر تو انھیں یہ طنز ضرور سننے کو ملتاہے کہ آپ کس پی ایف یو جے سے ہیں؟ بٹ گروپ کا حصہ ہیں یا شکیل قرار کا؟ پرویز شوکت کی ٹیم میں ہیں یا نواز رضا یا فاروق فیصل کے ساتھ؟
اس سوال کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمیں پتہ ہے آپ متحد نہیں ہیں ٹولیو ں میں بٹے ہوئے ہیں۔تنظیموں کے ساتھ رہ کر بھی مجھے کبھی مفاد کی لالچ نہیں رہی ۔۔ متذکرہ صاحبان آگاہ ہیں اور گواہ بھی ہوں گے کہ کبھی ذاتی فائدہ کی حرص نہیں رکھی ۔۔ ہاں البتہ کمیونٹی کے مشترکہ مفاد کی سوچ کے ساتھ چلے ہیں۔۔اس کے باوجودکسی سے کوئی مفاد نہیں ہے پھر بھی جب صحافیوں کی تقسیم دیکھتے ہیں تو دل دکھتا ہے۔
سی آر شمسی صاحب مرحوم جب پی ایف یو جیز کے اتحاد کی جدوجہد کررہے تھے تو کہیں نہ کہیں میں اور شہریار صاحب بھی اس کیلئے کردار ادا کررہے تھے۔ آخری بار جب سی آر شمسی صاحب میرے پاس ایکسپریس نیوز میں آئے تو انھوں نے مجھے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پرانے لوگ تماشائی بن کر بیٹھ گئے ہیں کوئی اتحاد کی عملی کوشش کیوں نہیں کررہا؟ میں نے کہا شمسی صاحب جب آپ کی کوئی نہیں مانتا تو ہماری کون سنتا ہے؟ ضیاء الدین صاحب مرحوم بھی یہی خواہش دل میں لئے اس دنیا سے چلے گئے۔
صحافیوں کے مل بیٹھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بعض لوگوں کے ذاتی مفادات ہیں۔۔ جڑواں شہر کے صرف 10 یا20لوگ ہوں گے جن کے مفادات کی وجہ سے 3ہزار صحافیوں میں فاصلے اور لڑائیاں ہیں۔۔ جس کو یقین نہ آتا ہووہ پریس کلب کے الیکشن کے موسم کو چھوڑ کر سب کی بیٹھکیں ۔ میل میلاپ دیکھ لے۔۔گروپس کی تمیز کئے بغیر لوگ آپس میں ملتے ہیں۔ دکھ سکھ بانٹتے گپ شپ کرتے نظر آتے ہیں۔۔ وہی لوگ انتخابا ت کے دوران دست و گریباں کیوں ہو جاتے ہیں؟ کوئی سوچتا کیوں نہیں؟
نیشنل پریس کلب کے حالیہ الیکشن پر آ جائیں کیا کوئی اس عمل کو قانونی یا آئینی کہہ سکتا ہے؟ سوائے اس گروپ کے جنھوں نے اپنی جیت کا یکطرفہ اعلان کیا۔۔میں اس گروپ کے ساتھ برسوں چلا ہوں ۔۔ میں ووٹرز فہرستوں کی سائنس کا چشم دید گواہ بھی ہوں۔۔ لیکن میرا مقصد کسی پر فرد جرم عائد کرنا نہیں ہے۔۔ اب کی بار بھی پہلی تلخی ووٹرز لسٹ میں نام شامل کرنے سے شروع ہوئی۔۔یہ بات طے شدہ تھی کہ 2020کی فہرست پر انتخابات ہوں گے۔
متعدد صحافی اس بار بھی جب ووٹ ڈالنے پہنچے تو پتہ چلا ان کا ووٹ کوئی اور ڈال گیا ہے۔۔جیسے تیسے پولنگ کا مرحلہ ختم ہوا ۔۔ گنتی شروع ہونے سے پہلے 96ووٹ اضافی نکل آئے۔۔یہ فرق پہلے ختم کرکے گنتی شروع ہونی چایئے تھی لیکن اس پر بحث ختم نہ ہوئی۔۔پھر جب الیکشن کمیٹی کے 3افراد موجود ہی نہیں تھے تو یکطرفہ گنتی شروع کردی گئی۔۔پہلا سوال یہ کہ کیا آپ کو کلب کا آئین اجازت دیتا ہے کہ تین گروپس کے کمیٹی ارکان کی غیر موجودگی میں گنتی شروع کردیں وہ بھی پولیس بلا کر۔۔اور جلدی کس بات کی تھی؟
ہونا تو یہ چایئے تھا کہ اگر ووٹوں کے فرق پربحث چل نکلی تھی تو چیئرمین الیکشن کمیٹی ووٹ باکس میں ڈال کر سیل کردیتے اور پہلے96ووٹوں کا فرق ختم کئے بغیر گنتی شروع نہ ہوتی۔۔ الیکشن نتائج تو پہلے بھی دوسرے دن تک چلے جاتے ہیں اگر اس بار ایگزیکٹو کے نتائج بھی سب کی موجودگی تک ہولڈ کر لئے جاتے تو کیایہ تنازعہ ختم ہونے کا امکان نہیں تھا؟ بات ساری نیت کی ہے جب آپ ایسے موقعوں پر دانشمندانہ فیصلے کرنے کی بجائے دوسرے فریقین کی غیر موجودگی کو واک اوور سمجھ لیں تو پھر انتخابات اور نتائج کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔
اب بھی سیاستدانوں کی طرح سیاست کی بجائے ٹریڈ یونین کی شفافیت کو ترجیح دینی چایئے۔ صرف نیشنل پریس کلب پر قبضہ کر لینے سے کوئی صحافیوں کا نمائندہ ہو سکتاہے؟ جب پورا سال ووٹ چور اور جعلی الیکشن کی صدائیں بلند ہوتی رہیں۔۔ ہر سرکاری غیر سرکاری پلیٹ فارم پر متنازعہ اننخابات زیر بحث ہوں تو کیا اس سے نیشنل پریس کلب کی ساکھ اور عزت داو پرنہیں لگے گی؟ ہمیں آپ برے نہیں لگتے ۔ آپ ہمارے بھائی ہیں۔برسوں ساتھ رہے ہیں زندگی رہی تو پھر بھی ایک ہی شہر میں رہیں گے۔
متنازعہ انتخابی نتائج کو لے کر چلنے سے بہتر ہے آپ ری پولنگ پر آئیں۔۔ اگر آپ کی اکثریت ہے تو وہ کوئی بھی ختم نہیں کرسکتا۔۔ آپ زیادہ دبنگ انداز میں واپس آ جائیں گے ۔۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ صحافیوں کی اکثریت آپ کے ساتھ ہے تو پھر خوف کس بات کا ہے؟
ہم بھی چاہتے ہیں اگر آپ جیت جائیں تو ہم آپ کو مبارکباد دیں ۔لیکن جس رفتار سے آپ نے نتائج تبدیل کئے ہیں اس کو کو ئی نہیں مانے گا۔حافظ افصل بٹ صاحب راستہ نکالیں۔۔بڑے پن کا مظاہر ہ کریں صرف ایک گروپ تک محدود نہ رہیں۔ صحافیوں کا مفاد اور ہم آہنگی پیش نظر رکھیں۔
Comments are closed.