عمران خان – مستقبل کے اشرف غنی؟

سلیم صافی

اشرف غنی،حامد کرزئی کے نسبت زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔ حامدکرزئی بھی تعلیم یافتہ ہیں لیکن اشرف غنی پی ایچ ڈی ہیں، امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہےاور How to fix faild states جیسی کتابوں کے مصنف ہیں۔عمران خان کی طرح محض کرکٹر نہیں بلکہ ماہر معیشت تھے اور صدر بننے سے قبل وزیرخزانہ بھی رہے تھے لیکن حامد کرزئی، اشرف غنی کی نسبت کئی گنا کامیاب حکمران ثابت ہوئے۔

انہیں افغانستان زیادہ تباہ حال شکل میں ملا تھا اور صفر سے آغاز کرنا پڑا تھا لیکن وہ امریکہ سے بھی نسبتا بہتر کھیلے اور طالبان کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے بھی روکے رکھا۔ اپنی الیکشن مہم یا پھر حکومت کے دوران حامد کرزئی نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر کم انحصار کیا جبکہ اشرف غنی نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔ اس کی وجہ سے وہ نوجوانوں میں نہایت پاپولر نظر آتے تھے ۔ صدر بننے کے بعد بھی عمران خان کی طرح الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر زیادہ انحصار کرتے رہے۔

حامدکرزئی کے مشیروں اور وزیروں میں عبداللہ عبداللہ، برہان الدین ربانی، ڈاکٹر فاروق وردگ، ڈاکٹر عمرزاخیلوال ،خود اشرف غنی، استاد سیاف اور اسی نوع کے دیگر زمینی حقائق جاننے والے لوگ شامل تھے جبکہ اس کے برعکس اشرف غنی نے مغرب اور دیگر ممالک سے جدید پڑھے لکھے غیرتجربہ کار نوجوانوں کو مشیر خاص بنائے رکھاجبکہ تجربہ کار لوگوں کو مختلف طریقوں سے سائیڈ لائن کئے رہے۔

مثلاً طالبان سے مذاکرات حکومتی ڈیل کے مطابق عبداللہ عبداللہ کی قیادت میں قائم کمیشن جس میں حامد کرزئی، استاد سیاف،کریم خلیلی اور دیگر بھی شامل تھے، کی ذمہ داری تھی لیکن اشرف غنی نے ایک دن بھی ان کو یہ کام کرنے نہیں دیا اور ان کی بجائے طالبان کے معاملے کو حمداللہ محب اور کچن کیبنٹ کے دیگر لوگوں کے ذریعے ڈیل کرتے رہے۔

عمران خان بعینہ اشرف غنی کے راستے پر گامزن ہیں۔ انہوں نے جاوید ہاشمی،پرویز خٹک، جہانگیر ترین،اسحاق خاکوانی،نورعالم خان اور ندیم افضل چن جیسے تجربہ کار سیاستدانوں پر مراد سعید ، فیصل واوڈا، شبلی فراز، علی زیدی اور انہی جیسے دیگر لوگوں کو ترجیح دی۔حماد اظہر جیسے لوگوں کو پرویز خٹک کو آنکھیں دکھانے کے قابل بنایا۔ برطانیہ سے مختصر دورے پر آئے ہوئے زلفی بخاری اور شہباز گل وغیرہ کو سیاہ و سفید کا مالک بنایا۔

یہ سب لوگ خوشامد کرسکتے ہیں ، مخالفین کو گالیاں دے سکتے ہیں ، چیخ و پکار کرسکتے ہیں لیکن سیاست کرسکتے ہیں اور نہ حکومت کرنا جانتے ہیں ۔ یہ سب عمران خان کے ڈاکٹر فضلی ہیں ۔جب مشکل وقت آیا اور طالبان کابل کے گرد جمع ہونے لگے تو اشرف غنی نے بھی حمداللہ محب اور ڈاکٹر فضلی کی بجائے حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ وغیرہ کو اختیار دیا کہ وہ پورے اختیار کے ساتھ قطر جاکر طالبان سے بات کریں.

لیکن جب اچھے دن تھے تو محب اور فضلی کو ہر مرض کا دوا سمجھا تھا۔ اسی طرح جب بحران آتا ہے تو عمران خان بھی پرویز خٹک وغیرہ سے رجوع کرتے ہیں لیکن جب وزارت، ترجمانی یا اسمبلی میں تقاریر کرنی ہوں تواس کیلئے زبان درازوں اورخوشامدیوں کو آگے کیا جاتا ہے۔ پرویز خٹک، اسحاق خاکوانی ، غلام سرور اور شاہ محمود قریشی جتنے بے اختیار ہیں، اتنے شہزاد اکبر ، فروغ نسیم اور بابر اعوان جیسے اجنبی زیادہ بااختیار ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اب خان کی خوشنودی کے لئے شبلی فراز جیسے وہ لوگ بھی اب مخالفین کے ساتھ بدتمیزی اور ان کی خوشامد کی تمام حدود پھلانگنے لگے ہیں چنانچہ جاتے جاتے اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ تمام خاندانی ، روایتی اور تجربہ کار سیاستدانوں کے لئے پی ٹی آئی میں رہنا مشکل ہوگیا ہے ۔ ابھی سے درجنوں ایم این ایز اور بعض وزیر دیگر جماعتوں اور بالخصوص مسلم لیگ(ن) کے ساتھ رابطے کرنے لگے ہیں۔

جبکہ عمران خان تیزی کے ساتھ اشرف غنی کے راستے پر گامزن ہونے لگے ہیں۔ ویسے تو سب خوشامدی اپنی اپنی جگہ حمداللہ محب نظر آتے ہیں لیکن ان کی ٹیم میں اصل حمداللہ محب ،اسد عمر ہیں۔ جو خوشامدی ہونے کے ساتھ ساتھ سازشی ذہن بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے معیشت کا بیڑہ غرق کیا لیکن پھر بھی عمران خان کی نظروں میں اپنے آپ کو افلاطون اور مسیحا بنا رکھا ہے۔

پہلے زلفی بخاری کو استعمال کرکے بنی گالہ کے راستے جہانگیر ترین کا پتہ کاٹا اور اب عمران خان کے کان بھررہے ہیں کہ پرویز خٹک ان کا متبادل بننے کی کوشش کررہا ہے ، حالانکہ اصلا” اس مشن پر وہ خود لگے ہوئے ہیں ۔ وہ حمداللہ محب کی طرح عمران خان کو معیشت اور سیاست کے بارے میں سب اچھا کی رپورٹ دے رہے ہیں ۔ جس طرح
حمداللہ محب ، اشرف غنی کوباور کراتے رہے۔

چنانچہ اشرف غنی کی طرح عمران خان بھی زمینی حقائق سے بے خبرہیں اور جس طرح اشرف غنی اب یہ کہہ رہے ہیں کہ جس روز وہ ملک سے نکل رہے تھے، اس روز کی صبح بھی انہوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ ملک چھوڑیں گے لیکن دوپہر کو حمداللہ محب نے آکر بتایا کہ وہ گھیرے میں آچکے ہیں اور اگر وہ کابل سے نہیں نکلے تو مارے جائیں گے۔

اسی طرح کسی بھی روز وہ لمحہ آسکتا ہے کہ اسد عمر ، عمران خان سے کہیں کہ سر! آپ نے حکومت نہیں چھوڑی تو ہم سب مارے جائیں گے ۔ لیکن اشرف غنی کے ساتھ ایک کردار اور بھی تھا جس نے ہر چیز کا مالک بننے کی خاطر کسی کو اشرف غنی کا دوست بننے نہیں دیا۔ ان کا نام تھا امراللہ صالح۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کا امراللہ صالح کون ہے؟

میر ی دانست میں امراللہ صالح کا رول یہاں پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے سنبھال رکھا ہے۔ عمران خان اوران کے حمداللہ محب وغیرہ کی منزلیں تو معلوم ہیں کہ اقتدار کے خاتمے کے بعد وہ کہاں جائیں گے لیکن مجھے فکر ہے کہ پاکستان میں رہنے والوں کے ساتھ کیا ہوگا؟۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی وہ نہ ہونے پائے جو اشرف غنی اور حمد اللہ محب کی خاطر دوسروں کی پگڑیاں اچھالتے رہے لیکن اب طالبان کے رحم وکرم پر ہیں۔

طالبان نے تو ان کے لئے معافی کا اعلان کردیا لیکن ان لوگوں نے عمران خان کی خوشنودی کے لئے جس طرح سیاسی اور صحافتی مخالفین پر کیچڑ اچھالنے کا طریقہ کار اختیار کئے رکھا، مجھے نہیں لگتا کہ انہیں اسی طرح معافی مل جائے گی جس طرح اشرف غنی کے چھوڑے ہوئے لوگوں کو افغانستان میں مل گئی۔ (بشکریہ روزنامہ جنگ)

Comments are closed.