بہترین رفیق
فہیم خان
بہترین رفیق وہی ہیں جو ہمیں اس دنیا کی تاریک اور بدصورت حقیقتوں سے بہاروں کی طرح نبرد آزما ہونا سکھائیں۔ ہماری غلطی کو غلط اور اچھائی کو صحیح طریقے سے شناخت کرنے اور ہم پر ہمارے رویے کو بہتر بنانے کی غرض سے پرخلوص ہو کر نصیحت کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں ۔یوں تو زندگی میں رشتے ملا ہی کرتے ہیں۔
مگر ایک انسانی رشتہ ایسا ہے جس میں زندگی ملاکرتی ہے اور وہ رشتہ ہے ”دوستی کا رشتہ“ ،،،،دلوں کے حال اللہ جانتا ہے اچھا اور راز دار دوست دلوں کی فریکوئنسی کا ملاپ ہوتا ہے نہ چاہتے بھی چاہت پیدا ہوتی ہے۔۔۔ اک نہ بیان کردہ سی کشش ہوتی ہے۔ اس طرح کا دوست زندگی میں ایک بار ضرور ملتا ہے لیکن ہم پہچان نہیں پاتے۔
جو پہچان لیتے ہیں وہ اچھا دوست پا لیتے ہیں۔ انسان کو اپنا جی ہلکا کرنے کے لیے اچھے دوستوں کی ضرورت پڑتی ہے ورنہ انسان تذیذب اور بے چینی کاشکار رہتاہے ۔ درحقیقت انسان کا دل فطری طور پر خوشی اور اطمینان کے جذبے سے ہے ۔ دوست وہ رشتہ ہیں جن کے سامنے اٹھنے‘ بیٹھنے‘ ہنسنے‘ بولنے کے اصولوں کا حساب کتاب نہیں رکھنا پڑتا۔
کب بولنا اور کتنا بولنا ہے کمزوریوں کو کیسے نہیں بتانا ہے۔ آنسوؤں کی نمی کو بہانوں میں کیسے چھپانا ہے جیسے مشکل اور تھکا دینے والے عمل سے گزرنا نہیں پڑتا۔ دوستوں کے ایک مصافحے اورمسکراہٹ پر اپنے دل کی ڈور ان کے ہاتھ میں تھما دیتی جاتی ہے یہ آنکھوں کے اشاروں سے الجھن سما دیتے ہیں.
ایک بار گلے لگتے ہی تمام دنیا سے چھپائے ہوئے خوف و الم الف تا ے سنادیتے ہیں۔اکثر لڑائیوں سے محبت بڑھتی ہے ہماری غلطی پر ہمارا اپنا ضمیر جتنی ملامت کرتا ہے کوئی اور نہیں کر سکتاغلطیاں کس سے نہیں ہوتیں ایک انسان جو اپنی کی ہوئی غلطی پر خود پشیمان ہوتا ہے اس کو اور شرمندہ کرنا کیا زیادتی نہیں؟
اس کے ساتھ ، اس طرح تو وہ ساری زندگی اس ملامت سے خود کو آزاد نہیں کر پاتا جو اس کا ضمیر اسے کرتا رہتا ہے۔اکثر تنہائی، پچھتاوے میں ایک نئے عروج کا آغاز بھی ہوتی ہے۔ جس میں نئے دوست اور ساتھی ہوتے ہیں۔ جسکا جو مقدر ہوتا ہے۔ وہاں اْسکا دوست بھی ہوتا ہے۔
جس طرح قیدی کی دوستی قیدکی تنہائیاں، آزاد کی خوشیاں، مطلب پرست کی مفاد، خلوص کی دوستی محبت ہیں۔ جو کسی کا ساجھی نہیں اْسکا کوئی ساتھی نہیں۔ جو سب کا ساجھی ہو مگر اْسکا کوئی ساتھی نہیں تو اْسکے رفیق بیشمار۔۔۔۔کبھی کبھی یارانہ ہم مفاد کو دیکھ کر بناتے ہیں۔
اکثر مفاد پیچھے رہ جاتا ہے، خلوص جگہ لے لیتا ہے۔ یہ سب دل کی محبت سے ہوتا ہے۔۔ تعلق یارشتہ بھی ایک دوستی ہوتا ہے۔ تمام رشتے ہمارے دوست ہوتے ہیں مگر اصل دوست الفت کا رشتہ ہوتا ہے۔کچھ دوستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں۔ جو چہرہ دیکھے بناء کی جاتی ہیں .
کیونکہ دوستی چہرہ دیکھ کر نہیں کی جاتی، نہ ہی زر دیکھ کر، دوستی تو مزاج جان کر ہو جاتی ہے۔ دوستی میں آزمانا شرط نہیں۔ ایک دوسرے پر اعتماد،یقین ،بھروسہ کر لینا دوستی ہے۔ یہ دِل کے تار ہوتے ہیں ایک جانب تار ہلتا ہے تو سینکڑوں میل دور کیفیات محسوس ہو جاتی ہیں۔
دراصل دلی لگاؤ ۔دوستی خدا کی اتنی بڑی نعمت ہے کہ ہم سمجھ نہیں سکتے۔ دوست ایسا ہی ہے جیسے باغ میں گلاب کے پھولوں کا کھلنا اور اپنی خوشبو سے تمام باغ کو مسحورکن بنا دینا۔ کسی کو ایک اچھا دوست میسر آ جائے تو اْسکی زندگی ہی بدل جاتی ہے۔
اچھےدوست کی دوستی ہماری غیر متوازن زندگی کو متوازن کرتی ہے۔ دوستی ایک دوسرے سے محبت ہی ہے۔ اچھا دوست اپنا اچھا رنگ اپنے دوست کی زندگی پر چھوڑ جاتا ہے۔ اپنی خوبی دوست کے مزاج کا حصہ بنا دیتا ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دوستی پھول کی وہ خوشبو ہے جو سارے جگ کو مسحور کن بنا دیتی ہے۔
Comments are closed.