میں نے ڈھاکہ ڈوبتے (کیوں) دیکھا

یاسر پیر زادہ

آج 12 دسمبر ہے۔ میرے سرہانے بریگیڈئیر صدیق سالک کی کتاب ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ رکھی ہے۔ میں اِس کتاب کو اٹھاتا ہوں، چند ورق الٹتا ہوں اور واپس رکھ دیتا ہوں، کچھ دیر بعد دوبارہ اسے کھولتا ہوں، اپنی ذلت کی داستان پڑھتا ہوں اور پھر بند کر دیتا ہوں۔ پوری کتاب پڑھنے کے لیے قاری میں حوصلہ اور ڈھٹائی چاہیے۔ مجھ میں دونوں نہیں۔ تاہم جی کڑا کرکے میں نے اِس میں ملک ٹوٹنے کا احوال پڑھا جسے پڑھ کر میرا دل ہی ڈوب گیا۔

بریگیڈئیر صاحب لکھتے ہیں کہ ۱۲ دسمبر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ’جنگ بندی‘ کا مسودہ تیار کیا گیا تھا، یہ مسودہ چیف سیکرٹری مظفر حسن نے بنایا تھا جسے جنرل فرمان نے منظور کرکے اسی رات جنرل یحییٰ کو بذریعہ تار بھجوا دیا تھا لیکن دو دن تک اِس تار کا کوئی جواب نہیں آیا، گویا’’ صدر پاکستان اپنی گوناں گوں مصروفیات سے اِس کاغذ کے پرزے کےلیے وقت نہ نکال سکے۔ ‘‘

بریگیڈئیر صاحب مزید لکھتے ہیں کہ’’ 14 دسمبر کو مشرقی پاکستان حکومت کا آخری دن تھا۔ اس روز گورنمنٹ ہاؤس کا ملبہ کیا بکھرا، حکومت کا شیرازہ بکھر گیا۔‘‘بالآخر اگلے دن یحییٰ خان نے جنرل نیازی کے نام یہ پیغام بھیجا :’’گورنر کا پیغام مجھے مل گیا ہے۔ اب آپ ایسے مرحلے میں ہیں جہاں نہ مزید مزاحمت ممکن ہے اور نہ اِس مزاحمت سے کوئی سود مند مقصد حاصل ہو سکتا ہے، بلکہ اِس سے مزید جان و مال کا نقصان ہوگا.

میں نے اِس اثنا میں اقوام متحدہ سے درخواست کی ہے وہ ہندوستان سے مشرقی پاکستان میں جنگ بند کرنے کو کہے اور اس سے ہماری مسلح افواج کے علاوہ ان تمام لوگوں کے تحفظ کی ضمانت مانگے جو شرپسندوں کی معاندانہ سرگرمیوں کا نشانہ بن سکتے ہیں۔‘‘جنرل نیازی نے صدر کے اِس فرمان کی روشنی میں بھارتی جنرل مانک شاہ کے نام جنگ بندی کا ایک پیغام لکھوایا جو امریکی قونصل جنرل کی وساطت سے بھارت پہنچا.

پیغام کا جواب 15 دسمبر کو موصول ہوا جس میں مانک شاہ نے جنگ بندی کی پیشکش قبول کر لی اور ساتھ میں یہ فقرہ بھی لکھا کہ ’’بشرطیکہ پاکستانی فوج ہتھیار ڈال دے۔ ‘‘ اس کے بعد بریگیڈئیر صدیق سالک لکھتے ہیں کہ کیسے بھارتی فوج ڈھاکہ میں داخل ہوئی:’’آگے آگے آتے ہوئے جو بھارتی دستہ چوٹ کھا کر پسپا ہو گیا تھا، وہ اس چھاتہ بردار پلٹن کا حصہ تھا جو چند روز پہلے تنگیل (ڈھاکہ سے اسّی کلومیٹر ) کے قریب اتاری گئی تھی۔

اس کے پیچھے جنرل ناگرا آ رہا تھا جو اب بھارت کے 101 کمینیکیشن زون کی کمان کر رہا تھا۔ وہ میر پور پُل کے پاس آ کر رک گیا۔ وہاں سے اُس نے لیفٹیننٹ جنرل نیازی کو ایک مختصر خط لکھا، جس میں درج تھا: ’پیارے عبد اللہ! میں میر پور پُل پر ہوں۔ اپنا نمائندہ بھیج دو‘۔۔۔جنرل نیازی نے جنرل ناگرا کے استقبال کے لیے میجر جنرل جمشید کو بھیج دیا۔ وہ سیدھے میر پور پُل پہنچے۔

انہوں نے سب سے پہلے میجر سلامت سے کہا، وہ ’سیز فائر کے آداب کا خیال رکھے۔ ‘ لہٰذا میجر سلامت اور اُن کے سپاہیوں نے لبلبی سے اپنی گولیاں ہٹا لیں اور میجر جنرل ناگرا ایک گولی فائر کیے بغیر ڈھاکہ میں داخل ہو گیا‘‘۔اِس سے آگے لکھنے کی مجھ میں تاب نہیں کہ بھارتی فوج کا رویہ کس قدر ہتک آمیز تھا.

کس طرح آفیسرز میس میں ’مہمانوں‘ کے لیے لنچ کا اہتمام کیا گیا اور اِس دوران جنرل نیازی کس قسم کے لطیفوں سے جنرل ناگرا کا دل جیتنے کی کوشش کرتا رہا اور پھر بالآخر لاکھوں بنگالیوں کے سامنے رمنا ریس گراؤنڈ میں اُس نے مشرقی پاکستانی کی دستاویز پر دستخط کرکے اپنا پستول جنرل اروڑہ کو پیش کیا۔

میرا سقوط ڈھاکہ پر لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، سچ پوچھیں تو میں اِس واقعے کو ہی دماغ سے کھرچ کر نکال پھینکنا چاہتا ہوں۔ لیکن دسمبر کا مہینہ آتے ہی نہ جانے کیوں تلخ یادوں کا ایک سمندر امڈ آتا ہے۔ یہ مہینہ پاکستان پر ویسے ہی بھاری ہے۔ اے پی ایس کا سانحہ بھی اسی مہینے میں ہوا تھا۔خیر،صدیق سالک کی کتاب پر واپس آتے ہیں۔ مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ بریگیڈئیر صاحب نے یہ کتاب کیوں لکھی؟

ضمیر کی خلش تھی یا داد و تحسین کی خواہش۔ تاریخ کا درست بیان کرنا مقصود تھا یا تاریخ سے سبق سیکھنا۔ صدیق سالک اب اِس دنیا میں نہیں رہے ورنہ یہ سوالات میں انہی سے پوچھ لیتا۔ چلیے ہم حسن ظن سے کام لیتے ہوئے فرض کر لیتے ہیں کہ بریگیڈئیر صاحب نے اپنا فرض سمجھا کہ چونکہ وہ تاریخ کے اُس موڑ پر مشرقی پاکستان میں موجود تھے.

اِس لیے ضروری تھا کہ جو کچھ انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتےہوئے دیکھا وہ سچائی اور ایمانداری کے ساتھ بیان کر دیا جائے، اسی لیے انہوں نے یہ تک لکھ ڈالا کہ ہتھیار ڈالنے کی ندامت میں وہ خود بھی شامل تھے(شاید اُن کے پاس یہ بات تسلیم نہ کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا)۔ لیکن صرف تاریخ کا بیان کافی نہیں ہوتا تاریخ سے سبق سیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔

بریگیڈئیر صاحب نے اپنی کتاب میں کئی واقعات لکھ کر تاریخ سے سبق سیکھنے کی دعوت دی ہے ، مثلاًمغربی پاکستان کے ہاتھوں بنگالیوں کے استحصال ، فیصلہ ساز افراد کی نا اہلی اور غفلت کی داستانیں، جنرل یحییٰ کا شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ توہین آمیز رویہ، حکمرانوں کی عیاشیوں کی کہانیاں وغیرہ۔ بظاہر یو ں لگتا ہے کہ ہر پاکستانی کی طرح وہ بھی اِس سانحے پر بے حد رنجیدہ تھےاِس لیے انہوں نے یہ کتاب لکھی تاکہ بحیثیت قوم آئندہ ہم ایسی غلطیاں نہ دہرائیں۔

میں اِس بات کا قائل نہیں کہ کسی انسان کو پرکھنے کے لیے محدب عدسہ لگا کر اُس کے کردار کی پڑتال کی جائے، انسان بہرحال فرشتے نہیں ہوتے، سالک صاحب بھی نہیں تھے۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ آپ کسی نظریے سے وابستگی کا اعلان بھی کریں اور وقت آنے پر اسی نظریے کے خلاف کھڑے بھی ہو جائیں۔جب کوئی شخص ماضی میں کی گئی اپنی کسی غلطی پر ندامت کا اظہار کر تا ہے تو اُس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے.

مگر ساتھ ہی اُس شخص کے لیے بھی ضرور ی ہے کہ وہ اسی ڈگر پر دوبارہ نہ چل پڑے ورنہ اُس کی یہ حرکت دائرے میں سفر کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔بحیثیت قوم ہم اب تک دائروں میں ہی سفر کر رہے ہیں، آج بھی ہم سقوط ڈھاکہ کا فقط ماتم ہی کرتے ہیں، اُس کی وجوہات تلاش کرنے یا کھل کر اُن پر گفتگو کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ یقین نہیں آتا تو مطالعہ پاکستان میں سانحہ مشرقی پاکستان سے متعلق باب پڑھ لیں.
(بشکریہ روزنامہ جنگ)

Comments are closed.