پٹے والا آوارہ کتا

احسن وحید

ماضی قریب کا واقعہ ہے کہ کسی گاؤں میں ایک آوارہ کتا رہتا تھا جسے گاوں کے چند آوارہ لوگ ہڈی ڈال دیتے تھے اور کبھی کبھی اپنا بچا ہوا گوشت روٹی اس کے آگے پھینک دیتے تھے وہ آوارہ کتا ان آوارہ اوباشوں کے بچے ہوئے پر منہ مار لیتا تھا وقت گزرتا گیا آوارہ کتے کو بچہ ہوا راشن پانی ملتا گیا.

آہستہ آہستہ اس گاؤں کے لوگوں کی روٹین سے بھی واقف ہو گیا اور حرام کا گوشت مرے ہوئے جانور وغیرہ کو کھا کھا کر لاغر بیمار آوارہ کتا اب صحت اٹھا گیا تھا ایک دن چوک میں بیٹھے آوارہ اوباشوں نے ایک برگر اور پیزے والوں کو ڈرا دھمکا کر پیزے اور برگر حاصل کیے.

آئے روز کی بدمعاشی سے تنگ آئے دکاندار نے ان اوباشوں کو گنڈے انڈوں اور باسی گوشت کے پیزے دیے ان لوگوں نے چوک میں بیٹھ کر حرام کے مال کو جائز سمجھ کر اس پر ہاتھ صاف کیے آدھا مال ہڑپ کرنے کے بعد سب کے طبعیت خراب ہونا شروع ہو گئی اور انہوں نے باقی پیزے اور برگر کو وہیں چھوڑ دیئے.

آوارہ کتے نے گندے انڈوں اور باسی گوشت کے بچے ہوئے پیزے پر خوب منہ مارا وقت گزرتا گیا آوارہ کتے کو اپنے آوارہ اوباش مالک سے کافی انس ہو گیا اب وہ ان کے پاؤں چاٹتا اور ان کے منہ لگتا اس اوباشوں کے ٹولے کو بھی ایک کتا مل گیا جو کتے کی طرف سے دم ہلا ہلا کر ان کے پاؤں چاٹنے اور منہ لگنے کو انجوائے کرتے.

ایک دن اوباشوں نے کتے کو دور ہڈی پھینکی تو کتا فورا بھاگ کر اس ہڈی کے پیچھے گیا اور ہڈی منہ میں لا کر ان کے پاس آ گیا ان اوباشوں کے ٹولے کو سمجھ آئی کہ یہ تو ان کے ساتھ اس قدر ہل گیا ہے کہ ان کے اشاروں پر ناچنے لگا ہے.

ان اوباشوں نےاب گاوں کے سفید پوشوں اور بچوں کو اس آوارہ کتے کے ذریعے ڈرانا شروع کر دیا اور آوارہ کتا اپنے مالکوں کے کہنے پر شریف لوگوں پر بھونکنا شروع ہوگیا تھا اور اگر کوئی شریف بزرگ یا بچہ گوشت لے کر گزرتا تو یہ اوباش کتے کے ذریعے اس کا گوشت چھین لیتے۔

ان اوباشوں کو اپنی بدمعاشی دکھانے کے لیے اب ایک کتا بھی مل گیا تھا جو وقتاً ۔فوقتاً ان کو گوشت چھین کر دے دیتا اور وہ اس گوشت سے چربی اور چھچھڑے وغیرہ اس آوارہ کتے کو بھی دے دیتے ۔ گاؤں کے لوگ بھی ان اوباشوں سے تنگ آنا شروع ہو گیے اور اس آوارہ کتے سے بھی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کتے نے بھی اب راستے سے گزرنے والے پر بھونکنا شروع کر دیا تھا ایک دن گاؤں کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ اس کتے کو انتظامیہ کے ذریعے تلف کیا جائے یہ بات گاؤں کے اوباشوں کو بھی پتا چلی تو انہوں نے کتے کے ذریعے ان لوگوں کو ڈرانے کا فیصلہ کیا.

جن لوگوں نے اس کتے کے بھونکنے کی شکایت کی ان لوگوں کے چوک سے گزرنے پر یہ اوباش اس کتے کو اشارہ کرتے اور راستے سے گزرنے والے شریف لوگوں کے پاس ہڈی پھینکتے تو یہ کتا جب اپنی ہڈی کی طرف بھاگتا.

شریف لوگ اس۔ڈر سے کہ کتے کی وجہ سے ان کے کپڑے ناپاک نہ ہو جائیں وہ وہاں سے بھاگتے روزانہ اس طرح کتے کے ہڈی کی طرف بھاگنے سے تنگ آ کر شریف لوگوں نے اپنےساتھ گھر سے بچا ہوا۔سالن لانا شروع کر دیا.

جسے ہی اوباشوں کی طرف سے پھینکی گئی ہڈی کی طرف کتا بھاگتا یہ لوگ ۔گھر سے لایا ہوا سالن کتے کی طرف پھینکتے اور کتا ہڈی کی طرف بھاگنے کی بجائے سالن میں منہ مارنا شروع کر دیتا وقت آہستہ آہستہ گزرتا گیا.

اب ان اوباشوں کی طرف سے کتے کے ذریعے بچوں بڑوں اور گاؤں کے شریف لوگوں کو روزانہ تنگ کرنا شروع کر دیاتھا گاؤں کے لوگ بچے بڑے یہ۔سمجھ چکے تھے کہ یہ کاٹنے والا نہیں بھونکنے والا کتا ہے ۔پر روزانہ اب اس کتے کی وجہ سے لوگوں کا قیمتی وقت ضائع ہوتا.

علاقے میں انتظامیہ کی طرف سے آنے والے ملازمین پر بھی یہ کتا بھونکتا اور ملازمین بے چارے وقت کی قلت اور اپنے وقت کو بچانے کے لیے اسے نظر انداز کرتے کچھ نے وقت ضائع نہ ہو اس سے بچنے کے لیے راستہ تبدیل کر لیا تھا.

کچھ لوگ اب روزانہ اس کتے کے بھونکنے سے تنگ آ چکے تھے ان میں انتظامیہ کے ملازمین بھی تھے سرکاری افسران جو اپنی ڈیوٹی کے لیے اس علاقے میں آتے تھے ایک بار پھر گاؤں کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ شہر سے انتظامیہ کے بڑے آفیسر کے ذریعے اس کتے کو گاؤں سے بھگایا جائے.

انتظامیہ نے ایک دن ٹرک میں اس کتے کو لادا اور شہر کی طرف لے گئے کتے کو لادتے ہوئے وہاں اس علاقے میں آنے والے افسران و ملازمین نے بھی دیکھا اور کام پر جاتے ہوئے اس کو خوب ڈنڈے سے پھینٹی لگائی کہ روز گزرتے ہوئے بھونکتاتھا.

کتا راستے میں بھونکنا شروع ہوا تو کتے کی راستے میں بھی خوب ٹھیک ٹھکائی ہوئی اور پورا راستہ اس کتے کی آواز نہ نکلی یہ بات گاؤں کے آوارہ اوباشوں کو معلوم ہوئی تو وہ شہر کے بڑے آفیسر کے پاس پہنچ گئے اور منت سماجت شروع کر دی کہ آئندہ یہ کتا کسی پر نہیں بھونکے گا.

منتیں ترلے کر کے اس کی جان چھڑائی اور انتظامیہ کے بڑے آفسیر نے منت سماجت پر اس کتے کو پٹا ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے کتا آوارہ اوباشوں کے حوالے کر دیا کچھ عرصہ تو کتے کو شہر جاتے ہوئے ٹرک میں جو مار پڑی وہ اتنی نقش ہوئی کہ کتا بھونکنا ہی بھول گیا.

لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انتظامیہ کے بڑے آفسیر کی تبدیلی ہوئی اور گاؤں سے بھی لوگ شہر میں اور اپنے اپنے کام کاج میں اتنے مصروف ہو گئے کہ وہ بھول گئے لیکن کتے کی فطرت ہے بھونکنا وہ کیسے باز آسکتا تھا.

اب چونکہ اوباشوں کو بھی اہلیان علاقہ کی طرف سے خوب لعن طعن ہو چکی تھی اس لیے وہ بھی اب اس کتے کو زیادہ لفٹ نہیں کرواتے تھے کچھ عرصہ گزرنے کے بعد کتا اب پھر اہلیان علاقہ پر بھونکنا شروع ہو چکا ہے اور اس بار اوباش بھی سامنے آ کر اسکو تھپکی نہیں مار رہے تھے.

لیکن گاؤں والوں نے اب بڑے آفیسر کی بجائے کتے کو خود ہی ٹھکانے لگانے کا سوچ رکھا ہے اب دیکھیں کب اہلیان علاقہ کے ہاتھ کتا لگتا ہے باقی جو کتے کے ساتھ اب ہونے والا ہے وہ انشاء اللہ اپنی اگلی تحریر میں ضرور آپ کو بتاؤں گا.

یہاں ایک بات انتظامیہ کیلئے بھی واضح ہے کہ کتے کے انجام کے بعد آوارہ اوباش اگر ان کے پاس آئنگے کیونکہ جب انتظامیہ کو اس کتے کی شکایت کی جاتی ہے تو انتظامیہ کہتی ہے کہ کتے کو چونکہ پٹا پڑا ہوا ہے اور پٹے والے کتے کو آوارہ کتا کہہ کر انتظامیہ تلف کرنے سے ڈرتی ہے.

کہیں اوباش مالک شور ڈالنا شروع کر دینگے لیکن ایک بات تو واضح ہے کہ کتا چاہے آوارہ ہو یا۔اوارہ کتے کے گلے میں پٹا پڑا ہو جب وہ بھونکنے کے ساتھ ساتھ کاٹنے کی کیفیت میں مبتلا ہو تو پھر ایسے کتے کو تلف کیاجاتا ہے.

ضلعی افسران سے امید کی جا رہی ہے کہ وہ آوارہ کتے کے بھونکنے سے تنگ آئے سائلین کی درخواست پر قانونی کاروائی کا حکم دینگے کیونکہ اب بھی اگر انتظامیہ کسی پٹے کی وجہ سے قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کر رہی تو پھر درخواست دینے والے سائلین اہل علاقہ اس کتے کا علاج خود کرنے پر مجبور ہونگے.
(وٹس اپ : 03345013089)

Comments are closed.