ترک صدر کا امریکہ سمیت 10ممالک کے سفرا کو ناپسندیدہ قرار دینے کاحکم
انقرہ( ویب ڈیسک) ترک صدر رجب طیب اردوان نے امریکہ ، فرانس اور جرمنی سمیت 10ممالک کے سفراء کو نا پسندیدہ شخصیات قرار دینے کا حکم جاری کردیاہے اور ملک بدر کئے جانے کابھی امکان ہے۔
اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ متذکرہ 10ممالک کے سفیروں نے سماجی کارکن عثمان کوالہ کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
سماجی کارکن عثمان چار سال سے بغاوت کی کوشش اور حکومت کے خلاف لوگوں کو مظاہروں پر اکسانے ایسے الزامات میں جیل میں ہیں تاہم ابھی تک انھیں کسی عدالت نے مجرم قرار نہیں دیا۔
رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ سفارتی اعتبار سے ‘ناپسندیدہ شخصیت’ کا مطلب ہے کہ اُن کی سفارتی حیثیت ختم ہو سکتی ہے اور اکثر اس کا نتیجہ ملک بدری کی صورت میں نکلتا ہے اور اُنھیں مزید سفیر تسلیم نہیں کیا جاتا۔
جن دس ممالک کے سفیروں نے رواں ہفتے عثمان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا ان میں امریکہ، کینیڈا، فرانس، فن لینڈ، ڈنمارک، جرمنی، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ، ناروے اور سویڈن شامل ہیں جب کہ ان میں سے سات ممالک ترکی کے نیٹو اتحادی ہیں۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے گزشتہ روز ایک عوامی اجتماع سے خطاب میں کہا کہ کہ سفیر ‘ترک وزارتِ خارجہ آ کر حکم دینے کی جرات نہیں کر سکتے، ان دس سفیروں کو فوراً ناپسنیدہ شخصیت قرار دینا ہوگا۔
ترک میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیاہے کہ ترک صدر نے واضح کیاہے کہ ان سفیروں کو یا ترکی کو سمجھنا ہوگا یا ترکی چھوڑنا ہوگا،ابھی تک صرف جرمنی کا ردعمل سامنے آیاجس میں باہمی مشاورت کرنے کا کہا گیاہے۔
ترک صدر کے اجتماع سے خطاب میں حکم کے باوجود متعلقہ حکام کی جانب سے ابھی تک اس حوالے سے کوئی باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا گیا ہے،دوسری طرف ناروے کی وزارت خارجہ نے روئٹرز کو بتایا کہ اُن کے سفیر نے ‘ایسا کچھ نہیں کیا جس پر ملک بدر کیا جائے۔
واضح رہے کہ ترک وزارتِ خارجہ نے منگل کو ان سفیروں کو عثمان کوالہ کے معاملے پر ‘غیر ذمہ دارانہ’ بیان دینے پر احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔
سفارت خانوں کے جاری کردہ بیان میں عثمان کوالہ کے ٹرائل میں ‘مسلسل تاخیر’ پر تنقید کی گئی تھی جو اُن کے مطابق ‘جمہوریت کی عزت، اور ترک عدالتی نظام میں قانون کی بالا دستی اور شفافیت کو گہنا’ رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیاہے کہ عثمان کوالہ کو گذشتہ برس سنہ 2013 میں ملک گیر احتجاج کے الزامات سے بری کر دیا تھا مگر اُنھیں تقریباً فوراً ہی دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تھا، یہ بھی کہ بری کرنے کا فیصلہ معطل کر کے اُن کے خلاف سنہ 2016 میں اردوغان کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کے الزامات عائد کر دیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق عثمان کوالہ کسی جرم کے ارتکاب کا انکار کرتے ہیں اور اردوغان حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اُن کا معاملہ اختلافی آوازوں کے خلاف وسیع تر کریک ڈاؤن کی مثال ہے۔
Comments are closed.