وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیابی کیلئے سادہ اکثریت درکار

کوئٹہ( زمینی حقائق ڈاٹ کام)بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد آج اسمبلی میں پیش کی جائے گی، تمام تر کوششوں کے باوجود مفاہمتی عمل کامیاب نہ ہوسکا۔

بلوچستان میں جام کمال خان کی سربراہی میں مخلوط حکومت قائم ہے جس میں بلوچستان عوامی پارٹی 24 ارکان صوبائی اسمبلی کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے ،بلوچستان اسمبلی کے 65 رکنی ایوان میں وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے سادہ اکثریت یعنی 33 ارکان کی ضرورت ہے۔

جام کمال سے استعفیٰ لینے میں ناکامی پر بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض گروپ کے 11 ارکان نے ایک ہفتہ قبل بی این پی عوامی کے دو اور تحریک انصاف کے ایک رکن اسمبلی کے ساتھ مل کر ایک ہفتہ قبل آئین کی شق 136کے تحت وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرائی جسے آج شام چار بجے بلوچستان اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

کوششوں کے باوجودبلوچستان میں حکمران جماعت اور اتحاد میں پیدا ہونے والے اختلافات ختم نہ ہوسکے اور ایک ماہ سے جاری سیاسی کشمکش کا فیصلہ بالآخر اسمبلی میں ہونے جارہا ہے۔

وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف بلوچستان عوامی پارٹی سمیت حکمران اتحاد کے ناراض اراکین صوبائی اسمبلی عدم اعتماد کی قرارداد لانے میں پیش پیش ہیں جب کہ دوسری طرف ٰ جام کمال ارکان کی اکثریت کی حمایت حاصل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔

منگل کی رات کو جام مخالف ارکان نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر سپیکر عبدالقدوس بزنجو کی رہائش گاہ پر عشائیے میں بظاہر اپنی اکثریت کا مظاہرہ کیا، جام مخالف گروپ کی جانب سے بلوچستان عوامی پارٹی کے مقرر کردہ قائم مقام صدر ظہور احمد بلیدی بھی 40 ارکان کی حمایت کادعویٰ کررہے ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی آرگنائزر سابق وزیراعلٰی جان محمد جمالی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گیم از اوور! جام صاحب کو خود ادراک کرنا چاہیے، عزت اسی میں ہے کہ چلے جائیں،تاہم جام کمال نے مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کیاہے۔

وزیراعلیٰ کے ترجمان لیاقت شاہوانی کا کہنا ہے کہ اکثریت اب بھی جام کمال کے ساتھ ہے،ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں لیاقت شاہوانی کا کہنا تھا کہ وزیراعلٰی بلوچستان جام کمال استعفیٰ نہیں دیں گے۔تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز اسمبلی فلور پر ہماری اکثریت ثابت ہوجائے گی۔

جام کمال اور ان کے مخالفین اپنے اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے تو بلوچستان اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار ہوگا کہ کسی وزیراعلٰی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں پیش اور اس پر رائے شماری ہوگی،2018 میں ثناء اللہ زہری اور 1998 میں سردار اختر مینگل نے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے استعفے دیئے تھے۔

بلوچستان اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے درمیان اختلافات گذشتہ ماہ کے وسط میں اس وقت شدت آگئی جب حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں جمع کرائی گئی اور وزیراعلیٰ کی اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض ارکان نے جام کمال سے استعفے کا مطالبہ کردیا۔

اتحادی جماعت بی این پی عوامی نے بھی وزیراعلیٰ سے راہیں جدا کرلیں،تحریک انصاف کے ایک رکن نصیب اللہ مری بھی کھل کر وزیراعلیٰ کی مخالفت میں سامنے آئے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے 24 ارکان میں سے آدھے ارکان جام مخالف کیمپ میں چلے گئے ہیں۔

ا ن میں سپیکر عبدالقدوس بزنجو، سابق وزیر خزانہ ظہور احمد بلیدی، سابق وزیراعلیٰ جان محمد جمالی اور سردار صالح محمد بھوتانی شامل ہیں،سابق صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیران،سابق مشیر اکبر آسکانی، سابق مشیر محمد خان لہڑی، سکندر عمرانی، لالہ رشید، خواتین ارکان بشریٰ رند، لیلیٰ ترین اور ماہ جبین شیران بھی جام کمال کے خلاف ہیں۔

جام کمال پر عہدے سے الگ ہونے کے لیے دباؤ ڈالنے کی غرض سے ناراض گروپ کے تین وزرا، دو مشیروں اور چار پارلیمانی سیکریٹریوں نے احتجاجاً اپنے عہدوں سے استعفے دیئے،اس کے باوجود جام کمال وزارت اعلٰی سے الگ نہ ہونے کے فیصلے پر ڈٹے رہے۔

Comments are closed.