شہزاد شفیع
آج کل آزاد کشمیر میں کے پی ایل کے نام سے ایک تھکی ہوئی لیگ کے ذریعے کشمیریوں کے جذبات سے کھیلا جا رہا ہے ۔۔اس لیگ کے سپورٹرز یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ کشمیر کی سرزمین پر پہلی بار ہو رہا ہے کہ اتنے بڑے بڑے کھلاڑی یہاں کھیل رہے ہیں۔۔لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے انٹرنیشنل کرکٹ میں آنے سے بہت پہلے کشمیر کی ٹیم انٹرنیشنل ٹیسٹ سٹیٹس حاصل کر چکی تھی۔۔۔۔اور انگلینڈ ویسٹ انڈیز اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک کے ساتھ کرکٹ کھیلتی تھی۔
اس ٹیم کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ہر رنگ نسل اور مذہب کے لوگ ایک گلدستے کی طرح شامل تھے ملکھا سنگھ, تنویر بھٹ، رنویر کمار، اسلم سپاری والا،سشیل ملک، جون ریڈ اور نظیر سدوزئی اس دور کے عظیم کھلاڑیوں میں شمار ہوتے تھے، کشمیر کی کرکٹ ٹیم 1890 سے انگلینڈ میں کاونٹی کرکٹ کھیلتی رہی جب کہ 1922 میں کشمیر کی قومی ٹیم کو انٹرنیشنل سٹیٹس ملا۔۔
1925 میں پہلی بار ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کشمیر کے دورے پر آئی.
اس وقت ویسٹ انڈیز کی قیادت بلیک بریڈمین کی عرفیت سے مشہور جارج ہیڈلی کر رہے تھے ہیڈلی اس وقت عالمی کرکٹ کے عظیم ترین بلے باز مانے جاتے تھے۔علامہ اقبال اپنی تصنیف داستان کشمیر میں لکھتے ہیں کہ جب ویسٹ انڈین ٹیم سری نگر کے انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم پہنچی تو جارج ہیڈلی وہاں کی خوبصورتی سے اتنا متاثر ہوا کہ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا اٹ از ا ے ہیون ان ایرتھit is a heaven on earth ۔۔
علامہ محمد اقبال نے بعد میں اپنے شہرہ آفاق شعر
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
میں جارج ہیڈلی کے انہی الفاظ کا ترجمہ کیا ہے۔
ویسٹ انڈیز اس وقت تک کالی آندھی تو نہیں بنی تھی لیکن ایک بہترین کرکٹ ٹیم تھی لیکن کشمیر کی نو زائدہ ٹیم نے عظیم ویسٹ انڈین ٹیم کو شکست سے دو چار کیا
اسی دوران جب جنگ عظیم اول کے بعد برطانوی سامراج کو زور ٹوٹ رہا تھا اور کرکٹ میں بھی ان کی قوت ختم ہو رہی تھی، اسٹریلیا، ویسٹ انڈیز اور نیوزی لینڈ سے پے در پے شکستیں کھانے کے بعد انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم نے نسبتا آسان ٹیم کے خلاف کھیلنے کو ترجیع دی اود ان کی ٹیم پہلی بار 1928 میں کشمیر کے دورے پر آئی.
انگلینڈ کرکٹ ٹیم عظیم کرکٹر ولفریڈ رہوڈز کی قیادت میں کشمیر پہنچی سیریز کا پہلا میچ مظفر آباد کے نسیم شاہ پوٹلا گراؤنڈ میں کھیلا گیا۔یہ دونوں ٹیموں کے بیچ پہلا انٹرنیشنل مقابلہ تھا، کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے اس تاریخی سیریز کا افتتاح کیا اود خود ٹاس کرنے میدان میں پہنچ گئے۔انگلینڈ کے کپتان اس صورتحال سے کافی پریشان ہوئے لیکن چونکہ ہری سنگھ اس وقت کے حاکم تھے تو کسی کو اعتراض کی ہمت نہیں ہوئی.
سب کی حیرت اس وقت دوبالا ہو گئی جب ہری سنگھ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے پچ پر پہنچ گئے، انگلش ٹیم میں ہاروڈ لاروڈ، باب وئیری اورولیم ٹیٹ جیسے خطرناک فاسٹ بالر شامل تھے، لیکن وفرڈ رہوڈز نے سلوبولرز سے بولنگ شروع کی تا کہ مہاراجہ کو زخمی کئے بغیر آؤٹ کیا جا سکے لیکن جلد ہی انگلینڈ کی غلط فہمی دور ہوگئی جب مہاراجہ نے ان کے بولرزکی دھلائی شروع کر دی، مہاراجہ ہری سنگھ 3 دن تک بیٹنگ کرتے رہے۔
تیسرے دن ملکہ برطانیہ کی آمد کی وجہ سے مہاراجہ کو اپنی اننگز ادھوری چھوڑنی پڑی۔یاد رہے ملکہ برطانیہ ہر سال چھٹیاں گزارنے کشمیر آتی تھیں، خیر یہ کرکٹ کی پہلی نامکمل اننگز تھی لیکن اس سے پہلے مہاراجہ 535 رنز بنا چکے تھے جو اب تک کسی بھی طرز کی کرکٹ میں ایک ریکارڈ ہے۔۔اس کارنامے کی وجہ سے ملکہ نے کشمیر کو ایک آزاد ملک تسلیم کرنے اور اپنی عملداری ختم کرنے کا وعدہ کیا۔۔۔لیکن اس کی شرط یہ رکھی گئی کہ کشمیر کی ٹیم انگلینڈ کو دوسرے ٹیسٹ میں بھی شکست دے۔
عامر خان کی مشہور فلم لگان دراصل اسی تاریخی واقعے پہ بنائی گئی ہے۔۔لیکن برطانوی حکومت کی ناراضگی سے بچنے کے لئے اور بد دیانتی کی وجہ سے اس میں کشمیر کرکٹ ٹیم کا ذکر نہیں کیا گیا.. پہلے ٹیسٹ میں شکست کے بعد کشمیر کے لئے کھیلے گئے دوسرے میچ کے لئے انگلینڈ کرکٹ ٹیم نے سری نگر کا رخ کیا جہاں لڈن شاہ انٹرنیشنل سٹیڈیم میں یہ تاریخی ٹیسٹ میچ کھیلا گیا۔۔۔ٹاس جیت کے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے لین ہٹن اور جیک ہابز کی سنچریوں کی مدد سے انگلینڈ نے 565 رنز بنائے۔
جواب میں کشمیر کے کھلاڑی ایک کے بعد ایک آؤٹ ہونے لگے۔۔۔اور 100 سے کم رنز پر 7 کھلاڑی آؤٹ ہو گئے، یہاں پھر ایک انوکھا واقعہ ہوا۔۔۔جب آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کرنے والے شبیر وانی نے ولفریڈ رہوڈز کی گیند پر ایک زور دار شاٹ ماری۔۔۔گینڈ باؤنڈری لائن کے باہر موجود ایک درخت کے کھوکھلے تنے کےاندر چلی گئی۔۔اس وقت تک کرکٹ کے قوانین اس حوالے سے خاموش تھے کہ دوڑ کے کل کتنے رنز بنائے جاسکتے ہیں۔۔۔اس لئے شبیر وانی اور دوسرے اینڈ پر موجود تنویر بھٹ نے دوڑنا شروع کر دیا۔
کشمیر کی تاریخ کی مستند کتاب مہاراج ترگنی میں لکھا ہے کہ یہ دونوں کھلاڑی مسلسل تین دن تک بھاگتے رہے۔۔۔جب لنچ یا ڈنر کا وقت ہوتا تو یہ دوڑنا بند کر دیتے اور وقفے کے بعد وہیں سے دوڑنا شروع کر دیتے۔۔یہ لوگ رات کو گھر چلے جاتے اور کھیل کی اوقات میں پھر بھاگنے لگتے۔۔انگلش کھلاڑی تین دن تک میدان میں کھڑے کشمیریوں کھلاڑیوں کو دوڑیں لگاتے دیکھتے رہے اس دوران تین گورے بے ہوش ہو کے اسپتال پہنچ گئے۔۔کشمیر ہاتھ سے نکلتا دیکھ کے انگلینںڈ کے کھلاڑی اور ملکہ برطانیہ اس صورتحال سے کافی پریشان ہوئیں۔
لیکن چونکہ قوانین موجود نہیں تھے اس لئے وہ اس دوڑبھاگ کے خلاف کچھ بھی نہ کر سکیں۔۔۔بالاخر تین دن بھاگنے کے بعد ایک مقامی لڑکے نے بال درخت کے کھوکھلے تنے سے نکالی۔۔مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی ۔۔اور شبیر وانی اور نسیم بھٹ دوڑ کے 1550 رنز بنا چکے تھے۔۔۔جب ملکہ برطانیہ اور برطانوی سرکار کو پتا چل گیا کہ شکست یقینی ہے اور کشمیر ہاتھ سے نکل گیا ہے۔۔۔تو انہوں نےاس شکست کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔۔۔۔جس کے خلاف پورے کشمیر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اس مسئلے سے آہنی ہاتھوں سے نپٹنے کا اعلان کیا اور کشمیر کے تمام کھلاڑیوں سمیت احتجاج کر نے والے 100 سے زائد کشمیریوں کو پلیانوالا باغ میں لائن میں کھڑا کر کے گولیاں مار دی گئیں۔۔۔یہ ظلم یہی تمام نہیں ہوا اس میچ اور سیریز کے بارے میں پوری دنیا کو بے خبر رکھنے کے لئے اس حوالے سے خبر چھاپنے اور نشر کرنے پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔۔۔اج آپ کو دنیا کی کسی کتاب کسی لائیبریری میں کشمیر کی عالمی شہرت یافتہ کرکٹ ٹیم، مہاراجہ کے 500 رنز اور شبیر وانی اور نسیم بھٹ کے بھاگ کے بنائے گئے 1500 رنز کا ذکر نہیں ملتا.
اس کی وجہ یہ تاریخی ظلم ہے۔۔ستم ظریفی یہ کہ برطانیہ نے دو سال کے اندر اندر بھارت کی کرکٹ ٹیم بنوا ڈالی 1932 میں اسے ٹیسٹ سٹیٹس بھی دلوا دیا۔۔کشمیر کے تمام فرسٹ کلاس کھلاڑی جو ہندویاسکھ تھے دباؤ کے تحت بھارت کی طرف سے کھیلنے لگے جب کہ کشمیری مسلمانوں کے کرکٹ کھیلنے پر مکمل پابندی لگا دی گئی ۔۔ اس کے بعد سےاب تک کشمیر میں صرف ٹیپ بال کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔۔اس تاریخی ظلم۔اور بر بریت کے باوجود آج بھی دنیا میں کہیں اگر ٹیپ بال۔ کا عالمی کپ ہو تو کشمیری کرکٹ ٹیم کسی بھی ٹیم کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔