حامد میر تم باز نہیں آو گے
فاروق فیصل خان
حامد میر سے پریس کلب میں ملاقات ہوئی تو دریافت کیا جناب بڑے جذباتی ہو گے تقریر کے دوران تو اس نے جواب دیا جذباتی نہ ہوتا تو کیا کرتا گھروں میں گھس کر مارتے ہیں ۔میری تقریر کے دوران قیصر بٹ مسلسل انگیخت کرتے رہے۔۔کہا کہنے سے پہلے اپنے دائیں باہیں نظر ڈال لینی تھی۔
جواب دینے سے پہلے اس کا جسم غصے سے کانپنے لگا اور محترمہ عاصمہ شیرازی کا حوالہ دے کر کہا دو دفعہ یہ لوگ خاتون کو ڈرانے کیلئے اس کے گھر میں داخل ہو کر چادر اور چار دیواری کی بے حرمتی کر چکے ہیں۔
ہنستے ہوئے اسے دعا دی اور کہا میرے ‘روے سخن’ ان لوگوں کے سہولت کار ہیں جن کو آپ للکار رہے ہیں اور جناب کے داہیں باہیں نظر آ رہے ہیں۔ترنت جواب دیا ان کا کردار ان کے ساتھ میں ظلم کے خلاف اور مظلوم کے حق میں آواز بلند کرتا رہوں گا ۔
گھر آ کے سوچ رہا تھا کہ یہ تو اس کا جینیٹک مسلہ ہے احتیاط نہیں کرے گا اور پھر 35 سال قبل پنجاب یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے دن یاد آ گئے ۔
ان دنوں کی ہماری "غیر اسلامی سرگرمیاں ” برادرانہ ثابت ہوئیں۔ آج وہ تمام غیر محرم میرے بچوں کی پھوپھیاں اور ہم ان کے بچوں کے ماموں ہیں۔
ہاں تو ان سرگرمیوں کی وجہ سے” برادران یوسف "کا ایمان خطرے میں پڑھ گیا اور نصف شب جسم کے ایک ایک پور نے اس کا کفارہ ادا کیا۔ پروفیسر وارث میر مرحوم جن سے ہمارا بڑا پیار تھا اس پر بڑا تلملاے اور مرحوم میاں طفیل محمد کو سخت خط لکھ کر احتجاج کیا۔۔
میں نے بہت روکا کہ میں تو سال بعد فارغ ہو جاوں گا آپ کیوں یہ مصیبت اپنے گلے ڈالتے ہیں لیکن ان کا جواب تھا میں ظلم کے خلاف اور مظلوم کے لیے ضرور آواز اٹھاوں گا۔ اللہ پاک پروفیسر میر اور میاں طفیل محمد دونوں کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین۔
اس خط و کتابت کے نتیجے میں ظالموں کو "تنظیمی ” سزائیں دی گئیں۔پروفیسر وارث میر مرحوم کے ساتھ جناب نذیر ناجی اللہ انہیں صحت عطا فرمائے اور مرحوم جہانگیر تمیمئ چھیڑ خانی کیا کرتے تھے۔
بڑے لوگوں کی بڑی باتیں چونکہ تمام بزرگوں کے ہاں حاضری ہوتی تھی بڑے دلچسپ ادبی فقرے سننے کو ملتے لیکن میر صاحب مرحوم کی زبان یا تحریر میں کبھی ایک لفظ بھی غیر شائستہ نہ نکلا۔
ناجی صاحب نے ایک دفعہ پپو یار تنگ نہ کر کے عنوان سے میر صاحب پر کالم لکھا تو میں نے خوب مزے لے لے کر ذکر کیا تو مسکرا کر کہنے لگے اپنے دوست منصورے کو سناو وہ بھی خوش ہو گا۔۔
پوچھا کون؟ تو کہا ایک منصوری ہے اور ایک منصورہ(پروفیسر مغیث الدین شیخ مرحوم اللہ ان کی مغفرت فرمائے )ذہین ماضی میں گھوم رہا ہے کبھی باپ اور کبھی بیٹا۔
نوے کی دہائی میں جذبات میں آ کر میرے غیر پیشہ ورانہ طرز عمل پر جب مشکلات کا شکار ہوا تو حامد میر بغیر کسی کے کہے قلم کو کمان بنا کر ڈھال بن گیا کیونکہ جانتا تھا میں اس طرز عمل پر مجبور کیا گیا تھا۔
ڈھال بنتے وقت اس نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ میرے ساتھ خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے والے وغیرہ وغیرہ کو وہ ناپسند کرتا ہے. حامد میر مجھے معلوم ہے کہ تم باز نہیں آو گے اور طاقت کی زبان سے تمھیں دبایا نہیں جا سکتا۔۔
پروفیسر وارث میر مرحوم کے ہزاروں شاگرد تمہارے لئے دعا گو اور تمہارے ساتھ کھڑے ہیں اور تم سے یہ توقع کرتے ہیں کہ تم ظلم کے خلاف اور مظلوم کے حق میں آواز آٹھاتے رہو گے۔
لیکن! تھوڑی سی احتیاط کے ساتھ کہ اداروں کا کوئی اہلکار تمھیں انگیخت نہ کرے۔ کم از کم اتنی ضرور کر لیا کرو کہ اداروں کے سہولت کار جن کو یہ ادارے مالی اور افرادی قوت مہیا کرتے ہیں تمہارے آگے پیچھے داہیں باہیں تو نہیں کھڑے؟