غلطی کا اعتراف
طارق عثمانی
انسان غلطی کا پتلا ہے، ہر انسان سے خطا ہوتی ہے۔ غلطی کر کے اس کا اعتراف نہ کرنے والا شخص بزدل ہوتا ہے جو غلطی کر کے اس پر ڈٹ جائے اور اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرے اس کی شخصیت اندر سے کھوکھلی ہوتی ہے اور وہ اپنی غلطی پر ڈھیٹ بن کر سماج میں چلتا پھرتا ہے۔
ایسے لوگوں کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں ہوتی، غلطی کا صحیح تدارک یہ ہے کہ انسان خود اپنے آپ میں اپنی غلطیاں تلاش کر کے ان کی اصلاح کرتا رہے تاکہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔
اقرار الحسن سید پاکستان کے ایک معروف نجی ٹیلی ویژن کے اینکر ہیں، اپنے ایک حالیہ پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران شہری کو سرعام تھپڑ ماردیا اور اقرار الحسن کی موجودگی میں دیگر بہت سارے لوگوں نے بھی اس شخص پر تشدد شروع کردیا۔
اس واقعے کی ریکارڈڈ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو اقرار الحسن کو شدید ترین تنقید کا نشانہ بنایا گیا لوگوں نے اپنا ردعمل دیا کہ کسی شخص کو کسی دوسرے شخص کو سرعام مار پیٹ کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
چہ جائے کہ وہ معروف اینکر ہوتے ہوئے اور عام شہریوں کے بنیادی حقوق کا دعویدار ہوتے ہوئے کسی پر خود بھی تشدد کرے اور دوسروں سے بھی مار پیٹ کروائے ایسے شخص کا یہ فعل صحافتی ضابطہ اخلاق کے بھی خلاف ہے.
میرے سمیت بہت سارے صحافیوں نے بھی اس واقعہ ، تشدد آمیز عمل اور رویے کی مذمت کی۔ سوشل میڈیا پر یہ ٹی وی اینکر ملک کے اندر اور باہر لوگوں کی طرف سے بھی تنقید کا نشانہ بنا۔ صارفین کا کہنا تھاکہ جو بھی وجہ ہو ایک اینکر کو کسی پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں۔
اس کو قانون اپنے ہاتھ میں لے کر سرعام عدالت لگانے کا اختیار نہیں کہ وہ لوگوں کے جرم کی نشاندہی کرے اور خود ہی اس کو سزا دینا شروع کر دے۔ سوشل میڈیا صارفین کی شدید تنقید کے بعد اقرار الحسن سید نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری اپنے ویڈیو پیغام میں اپنی اس غلطی کا اعتراف کیا اور اپنے اس فعل پر شرمندگی اور ندامت کا اظہار کیا۔
اقرار الحسن سید کی طرف سے اپنی غلطی کے کھلے عام اعتراف کے بعد دوبارہ سوشل میڈیا کےصارفین کی حمایت لی اور ٹویٹر پر ان کے حق میں ٹرینڈ دوبارہ ٹاپ پر رہا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مذکورہ اینکر نے سرعام اپنی غلطی کا اعتراف کر کے ایک ناخوشگوار واقعے کو خوشگواری میں بدلا اور لوگوں سے اپنے رویے پر معذرت کی۔
ہندوستان کے ایک بڑے مسلم اسکالر مولانا وحید الدین خان لکھتے ہیں کہ وہ اپنی ذات سے متعلق لوگوں کی شکایات کو اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں اور پھر ان شکایات میں اپنی غلطی دریافت کر کے اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ انھوں نے غلطی کے اعتراف کو اس طرح تحریر کیا ہے۔
ہر آدمی غلطی کرتا ہے اور سب سے بہتر غلطی کرنے والا وہ ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے غلطی کی۔ غلطی کا اعتراف کرنے والے کے لیے نئے درجات کا آغاز ہے۔ جب کہ اس کے برعکس جو آدمی اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرے وہ اسی غلطی میں بدستور پڑا رہے گا وہ کبھی اس سے نکل نہ سکے گا۔
غلطی کا اعتراف نہ کرنا بزدلی ہے اور غلطی کا اعتراف کرنا بہادری۔ غلطی کرنا ایک نقصان کی بات ہے لیکن جب آدمی اپنی غلطی کا اعتراف کرلے تو گویا اس نے اپنے نقصان کی تلافی کرلی۔ غلطی کا اعتراف تمام انسانی خوبیوں میں سب سے بڑی انسانی خوبی ہے.
جس آدمی کے اندر یہ حوصلہ ہو کہ وہ کھلے دل سے اپنی غلطی کا اعتراف کر لے، اس کے اندر اس اعتراف کے نتیجے میں ہر قسم کی مثبت خوبیاں پروان چڑھنے لگتی ہیں۔ اس کے اندر تواضع پیدا ہوتی ہے اور تواضع علم کی دنیا میں داخلہ کا دروازہ ہے۔
اس کے اندر اصلاح خویش کا مادہ پیدا ہوتا ہے جو اس کی شخصیت کو مسلسل ارتقاء یافتہ شخصیت بناتا رہتا ہے۔ اس کے اندر حقیقت واقعہ کے اعتراف کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے جو اس کو کامل حق تک پہنچانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
اس کے اندر مثبت طرز فکر تمام انسانی ترقیوں کا زینہ ہے۔ اس کے اندر متکبرانہ نفسیات کی جڑ کٹ جاتی ہے اور جو شخص متکبرانہ نفسیات سے پاک ہو وہی وہ شخص ہے جس نے سچی انسانیت کا تجربہ کیا غلطی کا اعتراف ذہن کے بند دروازوں کو کھولتا ہے۔ غلطی کا اعتراف آدمی کو قلب کی تنگی سے بچاتا ہے۔
غلطی کا اعتراف بظاہر ایک سادہ سی بات ہے مگر اپنے نتیجہ کے اعتبار سے وہ اتنی بڑی خوبی ہے کہ اس سے بڑی خوبی اور کوئی نہیں، جو آدمی اعلیٰ انسانی درجہ تک پہنچنا چاہتا ہو اس کو ہمیشہ غلطی کے اعتراف کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ غلطی کا اعتراف کرنا ایسا ہی ہے جیسے ٹھوکر کھانے کے بعد دوبارہ اٹھ کھڑا ہونا۔ ایسے آدمی کا راستہ کبھی رکنے والا نہیں۔ وہ ضرور منزل پر پہنچ کر رہے گا۔