کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟
آپ آنکھیں بند کریں اور 70 کی دہائی میں چلے جائیں۔ آپ کو لگے گا کہ جیسے یہ 70 نہیں 2021 ہے۔ صرف شخصیات بدلیں اور چند واقعات کا جائزہ لیں تو آپ ششدر رہ جائیں گے لگے گا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے یا کم ازکم نئے روپ میں پرانے درشن کرا رہی ہے۔ کہتے ہیں تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا ۔ ہم نے بھی نہیں سیکھا اسی لیے وہیں پر موجود ہیں جہاں برسوں پہلے کھڑے تھے۔ تاریخ کے طالبعلم کی حیثیت سے آجکل کے حالات کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ ہم واپس کلاسیک 77 کی طرف گامزن ہیں۔ نجومی نہیں اس لیے مستقبل کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ سمت ٹھیک نہ ہو تو منزل تباہی کے سوا کچھ ہوہی نہیں سکتی۔
1970 کے عام انتخابات کے دوران بھٹو پاکستان کے مقبول ترین لیڈر نہیں تھے بلکہ شیخ مجیب کو ان پر واضح برتری حاصل تھی جو انتخابی نتائج میں بھی سامنے آئی چونکہ یہ ملکی تاریخ کے پہلے انتخابات تھے اس لیے اس وقت کی فوجی جنتا قبل ازوقت دھاندلی، بندے توڑنے یا غائب کرنے کی سیاست سے نابلد تھی چنانچہ، شکست کھا گئی۔ ملک بھر کے انتخابی نتائج میں دوسرے نمبر پر آنے والے بھٹو اس وقت کے فوجی ڈکٹیٹرجنرل یحییٰ خان اور جنرل گل حسن کی آنکھوں کا تارا تھے۔ اسی لیے جب پاکستان کو 71 کی جنگ میں بھارت نے شکست دی اور فوج کے اندرسے ردعمل آیا تو یحییٰ خان نے اقتدار بھٹو کو دینے میں ہی عافیت سمجھی۔ گل حسن کو اندرونی سازش کے انعام میں فوج کا کمانڈر انچیف لگایا گیا اور کچھ عرصے میں جب گل حسن نے پر پرزے نکالنے کی کوشش کی تو انہیں فارغ کردیا گیا۔ بھٹو بھی فوج کی مدد سے ہی اقتدار میں آئے تھے۔ انہوں نے ٹوٹے ہوئے پاکستان کو سنبھالنے اور ملک کو نیا آئین دینے جیسے عظیم کاموں کے ساتھ ساتھ کچھ تباہ کاریوں کی بنیاد بھی رکھی۔ جن میں سب سے اہم عدم برداشت کا فروغ تھا۔
لوگ بھول جاتے ہیں کہ بھٹو دور میں ایک غیرعلانیہ مارشل لا لگا ہوا تھا۔ وہ تنقید پسند کرتے تھے نہ برداشت۔ انہوں نے دلائی کیمپ بنوائے اور اپنے مخالفین کو جیلوں اور دلائی کیمپوں میں بھیجا۔ میڈیا پر پابندیاں عائد کیں۔آج کی صورتحال بھی ہمارے سامنے ہے۔ جے اے رحیم اور معراج محمد خان نے پیپلزپارٹی بنانے اور بھٹو کو بھٹو بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا مگر اقتدار میں آتے ہی دونوں بھٹو کے عتاب کا شکار ہوئے۔ عمران خان کا جہانگیرخان ترین اور اکبر ایس بابر کے ساتھ اپنایا گیا رویہ دیکھیں تو آپ کو بھٹو کا جے اے رحیم اور معراج محمد خان کے ساتھ اپنایا گیا رویہ یاد آجائے گا۔ بھٹو کے دور میں بھی میڈیا پر کڑی پابندیاں تھیں۔ کراچی کے معروف ٹریڈ یونین رہنما منظور رضی نے ایک بار بتایا تھا کہ ہم بائیں بازو کے لوگوں نے بھٹو کی بھرپور حمایت کی تھی مگر اقتدار میں آتے ہی بھٹو نے ہم سب کو بھی جیلوں میں ڈال دیا۔
بھٹو نے اپنے اقتدار کے استحکام کیلئے اپوزیشن جماعتوں کی خفیہ نگرانی کا کام تیز کیا۔ اس مقصد کے لییخفیہ ایجنسی آئی ایس آئی میں سیاسی سیل بھی جناب بھٹّو نے ہی متعارف کروایا۔ اس سب سے ہٹ کر بھٹو نے ریاست میں مذہب کے استعمال کو بھی دوام بخشا۔
بھٹو کے عہد میں اپوزیشن بالکل ایسے ہی بے بس تھی جیسے آج ہے۔ اسے تاریخ کا جبر کہیں یا حسن اتفاق کہ بھٹو کے خلاف اپوزیشن اتحاد کی سربراہی مفتی محمود نے کی تھی اور آج عمران خان کے خلاف اپوزیشن اتحاد کے سربراہ انہی مفتی محمود کے بیٹے مولانا فضل الرحمٰن کررہے ہیں۔ بھٹو کوئی اتنے تو ہم پرست نہیں تھے لیکن ان کی ماں کو بچپن میں ایک ہندو جوتشی نے بتایا تھا کہ وہ بڑا نام کریں گے اور غیرطبعی موت مریں گے۔ بھٹو کو اپنی ماں کا کمپلیکس تھا تو وزیراعظم اپنے والد کے کمپلیکس کا شکار ہیں، عمران خان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ تو ہم پرست ہیں، کہا جاتا ہے کہ اُنہیں اسی کی دہائی میں ایک ہسپانوی خاتون نے بتایا تھا کہ اگر وہ سیاست میں آئے تو غیر طبعی موت مریں گے۔ پھر وہ سیاست میں آگئے اِس میں وہ کس کی ہدایات لیتے ہیں، یہ راز کھلنا باقی ہے۔
بھٹو اور عمران کی شخصیات میں کچھ بنیادی فرق بھی ہیں۔ بھٹو نے عوام کو زبان دی اور عالمی سطح پر اپنے دشمن بنائے۔ عمران خان نے روایتی سیاستدانوں کے خلاف لوگوں کو اکسایا مگر زبان بندی بھی کڑی کی۔ بھٹو کے دور میں افغانستان پک رہا تھا تو آج پھر وہاں سے عالمی برادری اور امریکہ کی روانگی کے بعد اندرونی عدم استحکام کے شعلے بلند ہوتے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان پر اندرونی کے ساتھ ساتھ بیرونی اثرات کا بڑا اثر رہتا ہے یہ اثر 1977 میں بھی تھا اور آج 2021 میں بھی موجود ہے۔ بھٹو بڑے ذہین وفطین لیکن اقتدار میں آکر غیرمقبولیت کا شکار بھی ہوئے۔ عمران بھی غیر مقبولیت کا شکار ہوئے ہیں لیکن برجستہ اور رواں نہیں ہیں لیکن تاریخ بدستور رواں ہے۔ عمران بھی بھٹو کی طرح اقتدار میں اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہیں لیکن جو اسٹیبلشمنٹ نے بھٹو کے ساتھ کیا لله کرے عمران خان کے ساتھ ویسا نہ ہو۔ کسی کو پتہ نہیں لیکن ڈریہی رہتا ہے کہ تاریخ 5 جولائی 1977 کو نئے روپ میں نہ دہرائے۔ کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟
( بشکریہ روزنامہ جنگ)