صحافت کی سانپ سیڑھی

0

مظہر عباس

صحافت اور سیاست میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایوانِ اقتدار کی راہداریوں سے قریب ہونے، رابطہ رکھنے اور اُس کا حصہ بن جانے میں باریک سا فاصلہ ہے۔ کچھ دوستوں نے یہ فاصلہ برقرار رکھا اور چند ایک نے اِس کو عبور کرلیا۔ اِن ایوانوں میں کسی ’’خبر‘‘ کی تلاش میں جانا اور پھر وہیں کا ہو جانے میں بہرحال فرق ہوتاہے۔ کچھ وزیر بن گئے کچھ مشیر اور چند ایک نے انتظامی عہدے لے لیے اور پھر صحافت میں واپس آگئے۔ نہ کوئی حساب نہ کتاب۔

آج سے 40سال پہلے جب صحافت پڑھنے اور کرنے کا خیال آیا تو والد مرزا عابد عباس نے بس ایک ہی نصیحت کی۔ ’’بیٹا‘‘ اچھا انتخاب ہے بس سوچ لینا عزت کمانی ہے یا پیسہ‘‘۔ چند سالوں میں ہی اندازہ ہوگیا کہ تنخواہیں زیادہ نہیں مگر ایک لگن تھی ’’خبر‘‘ لانے کی سو اِس سے رومانس سا ہوگیا۔ ایک بار کراچی پریس کلب میں بینظیر بھٹو شہید نے پی پی پی میں آنے کی پیشکش کی، زور بھی دیا مگر یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں سیاست کو صحافی کی نظر سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ سو یہ سفر اب تک جاری ہے۔

ٹی وی چینل آنے سے تنخواہوں میں اضافہ تو ہوا مگر اس کا فائدہ پوری انڈسٹری کو نہ ہوسکا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ دوسرے ذرائع استعمال کریں۔ کچھ دوست سیاست میں آگئے۔ حیران تھا جب ایک صحافی کے اثاثے اربوں میں تھے، اب وہ سیاست میں ہیں۔ اﷲ خوش رکھے۔

صحافت سے سیاست میں دنیا بھر سے کچھ لوگ گئے۔ خود ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ایم جے اکبر اور کچھ دیگر دوستوں کے نام آتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی کئی اچھے مدیر اور صحافی سیاست میں آئے اور اب بھی ہیں تاہم کچھ نے اکتفا صرف انتظامی نوکری پر کیا۔

ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر جناب احمد علی خان نے اپنی کتاب ’’اِن سرچ آف سینس‘‘ میں اسی اخبار کے ایڈیٹر جناب الطاف حسین کے ایوب کابینہ میں جانے کا واقعہ تحریر کیا ہے۔ ’’الطاف صاحب کو قیام پاکستان کے بعد کئی بار وزارتوں کی پیشکش ہوئی مگر وہ یہ کہہ کر انکار کر دیتے کہ میں ایک معتبر اخبار کا مدیر ہوں، ایک خبر پر وزیر تبدیل ہوسکتا ہے۔

وزارت کیوں قبول کروں۔ مگر جب خواجہ ناظم الدین کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹایا گیا تو اُن کے رویہ میں اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے تبدیلی آئی اور 1958ء کا مارشل لگنے کے بعد وہ وزیر ہوگئے۔ البتہ کچھ عرصے بعد الطاف صاحب نے وزارت سے استعفیٰ دیدیا مگر صحافت میں واپس نہیں آئے۔ہمارے کئی دوست اور سینئرز صحافت سے سیاست میں گئے مگر یہاں تین کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ اُن کے واقعات دلچسپ ہیں۔ ان میں سے جناب مشاہد حسین سید اور محترمہ شیری رحمان صاحبہ سے اس سلسلے میں بات بھی ہوئی البتہ نجم سیٹھی صاحب سے رابطہ نہ ہوسکا۔

مشاہد صاحب کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (نواز) سے ہے۔وہ اسلام آباد سے شائع ہونے والے ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر تھے۔ ان کے ساتھ اخبار میں کام کرنے کا موقع تو نہیں ملا البتہ جن لوگوں نے کام کیا وہ اُن کی بطور ایڈیٹر تعریف کرتے ہیں ۔ انہی دنوں ان کا ایک تنازعہ بھارتی صحافی کلدیپ نائر اور ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انٹرویو بنا۔

وہ کہتے ہیں میں نے اس کے بعد اخبار سے استعفیٰ دیدیا تھا کیونکہ مجھے اندازہ تھا اُس دباؤ کا جو اخبار پر آنا تھا۔ اس انٹرویو کے ذریعہ پہلی بار یہ انکشاف ہوا تھا کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے۔ اُن سے پوچھا آپ صحافت چھوڑ کر سیاست میں کیوں آگئے؟ کہا ’’سچ پوچھیں تو میں بور سا ہونے لگا تھا‘‘۔یہ 1993 کی بات ہے میاں نواز شریف اور سابق صدر غلام اسحاق خان کے درمیان سرد جنگ چل رہی تھی۔ میاں صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے مشورہ دیا کہ آپ کی حکومت جا تو رہی ہے مگر آپ اگر قوم سے خطاب کرکے یہ اعلان کریں گے کہ ڈکٹیشن نہیں لوں گا تو عوام میں مقبولیت بڑھے گی۔ ایسے میں میں آپ کے ساتھ ہوں۔ یہ میری سیاست میں پہلی انٹری تھی۔

محترمہ شیری رحمٰن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ بہت بولڈ ایڈیٹر تھیں۔ یہ 1992ء کی بات ہے۔ جام صادق مرحوم کا دور تھا۔ وہ ہیرالڈ رسالے کی مدیر تھیں۔ ادریس بختیار مرحوم اور میں نے ایک ’’بدنامِ زمانہ سی آئی اے سینٹر کے عقوبت خانہ پر‘‘کے عنوان پرکوراسٹوری کی، رسالے پر مقدمہ قائم ہوگیا۔ FIRکٹ گئی۔ سب نے فیصلہ کیا کہ مقدمے کا سامنا کریں گے۔ پولیس والے آفس آگئے تو ہم وہیں موجود تھے۔ بعد میں سب کورٹ گئے۔ اتنے صحافی تھے کہ جج بھی پریشان ہو گیا۔ حکومت نے کیس واپس لے لیا۔

شیری رحمٰن کے بقول صحافت چھوڑ کر سیاست میں آنے کا فیصلہ آسان نہیں تھا۔ ’’1998ء میں بینظیر بھٹو نے جب پہلی بار آفر کی تو میں نے کہا کہ کیا آپ کی سیاست اور پارٹی میری تنقید برداشت کرلے گی، بی بی نے کہا مجھے ایسے ہی بولڈ لوگوں کی ضرورت ہے۔ میگزین سے استعفیٰ دیا اور پی پی پی میں شمولیت اختیار کرلی۔

2002 میں پہلی بار خواتین کی مخصوص نشست پر ایم این اے منتخب ہوئیں اور اب سینیٹر ہیں۔ ایک بار وزیر اطلاعات بھی رہیں حالانکہ احمد علی خان صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اگر کسی صحافی کو سیاست یا حکومت میں جانے کا شوق ہے تو کبھی یہ وزارت قبول نہیں کرنی چاہئے کیونکہ عین ممکن ہے کچھ قوتیں آپ سے اپنی برادری اور میڈیا کے خلاف کام لینا چاہیں۔ شیری نے بہرحال وزیر بن کر پیمرا سے صدر پر ہونے والی تنقید پر پابندی کی وہ شق نکلوائی جوپرویز مشرف نے 2007میں شامل کروائی تھی۔

نجم سیٹھی کے قلم اور تبصروں میں بھی بڑی جان رہی ہے ایسے میں اُنہیں نگران وزیر اعلیٰ پنجاب بننے اور کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بننے عہدوں کی کیا ضرورت تھی جس سے اُن کی غیر جانبداری متاثر ہوئی جبکہ وہ باضابطہ طور پر کسی جماعت میں شامل بھی نہیں ہوئے۔

صحافت اتنی بھی آسان نہیں ہے جتنی ہم نے بنا دی ہے۔ پچھلے 74سالوں میں اس کو دبانے اور آزادی صحافت کا گلا گھوٹنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا گیا مگر صحافی قربانیاں دیتے رہے جان کی بھی اور جاب کی بھی۔ آزادیٔ صحافت ذمہ داری کا ایک بوجھ ہوتی ہے جو صرف اُس وقت نبھائی جاسکتی ہے جب مفادات آڑے نہ آئیں۔

صحافت اور سیاست میں واقعی چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایک فرق یہ ہے کہ سیاسی رہنمائوں کے بارے میں تو یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ گیٹ نمبر4کی پیداوار ہیں، اب تو کچھ اشارے میڈیا کی طرف بھی کیے جارہے ہیں۔اس وقت صحافیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے مگر صحافت لاپتہ ہے۔ حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے ختم ہوتے جارہے ہیں۔ ایوانِ اقتدار کی راہداریوں میں جاکر ’’خبر‘‘ نکال کر لانے والوں کی تعداد کم ہوگئی ہے کیونکہ کچھ وہیں رہ جاتے ہیں واپس نہیں آتے۔

سوچتا ہوں کسی اخبار، چینل یا سوشل میڈیا کے ذریعہ ایک اشتہار دے ڈالوں کھوئی ہوئی صحافت کی واپسی کا، صحافت کی سیڑھی پر قدم رکھ ہی لیا تو ذرا احتیاط سے۔ اس میں سارا معاملہ ہے ہی آپ کی ساکھ کا ورنہ تو لوڈو کے کھیل کی طرح 99پر پہنچ کر کبھی کبھی سانپ نگل بھی جاتا ہے۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ)

Leave A Reply

Your email address will not be published.