سفارتخانہ پر الزامات ، سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کیا کہتے ہیں؟
الریاض(خصوصی رپورٹ۔ زمینی حقائق ڈاٹ کام)سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے کے خلاف وزیراعظم کی طرف سے انضباطی کارروائی پر سعودی عرب میں پاکستانیوں نے رلے ملے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بعض لوگوں نے وزیراعظم عمران خان کے ایکشن کا خیر مقدم کیاہے جب کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم کو غلط رپورٹ کیا گیاہے۔
اس حوالے سے ، زمینی حقائق ڈاٹ کام، کی مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے گفتگو ہوئی ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا ایکشن لینا اس طرح سے درست فیصلہ ہے کہ اس کا فائدہ تارکین وطن کو ہی ملناہے ، امید کی جاسکتی ہے سفارتی حملہ اپنا رویہ درست کرے گا اور سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کی شکایات کاازالہ ہو گا۔
سعودی عرب میں مقیم ، سینئر صحافی، کالم و تجزیہ نگارمبشر انوار کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے بیان نے وزارت خارجہ کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے- وزارت خارجہ کے افسران کی کارکردگی سے متعلق ہمیشہ شکوک و شبہات رہے ہیں اور تارکین وطن ان کی سست روی پر نالاں ہی دکھائی دئیے۔
انھوں نے کہا کہ بالخصوص مشرق وسطی میں تارکین کی ایک بڑی تعداد، جس کا واسطہ سفارت خانوں سے رہتا ہے، عدم تعاون کا شکوہ کرتے ہیں۔ تاہم موجودہ صورتحال انتہائی گھمبیر نظر آتی ہے کہ اب معاملہ منفی روئیے سے بڑھ کر رشوت ستانی تک جا پہنچا ہے۔
ریاست کی خدمت کرنے والوں سے رشوت، معاملا گھمبیر ہے، سینئر صحافی
مبشر انوار نے اس بات پر تشویش کااظہار کیاکہ یہ رشوت ستانی بھی ان تارکین وطن سے ہو رہی ہے، جو مشرق وسطی میں محنت مزدوری کر کے نہ صرف اپنے اہل و عیال کے لئے ضروریات زندگی بلکہ ریاست کو قیمتی زر مبادلہ فراہم کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں موجودہ حکومت نے بہت سی موبائل ایپلیکیشن متعارف کروائی ہیں تا کہ صارف کے لئے آسانی ہو سکے لیکن بد قسمتی سے صارفین کی اکثریت ان ایپلیکیشن کے استعمال سے نا واقف ہے اور کسی کی مدد حاصل کرنے کے لیے اس کو فیس ادا کرتی ہے۔
یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن سفارت خانے کا براہ راست اس میں ملوث ہونا اور سفارت خانے کے تمام افسران کو واپس بلانا، سمجھ سے بالا ہے کہ چند افسران تو ابھی حال ہی میں تعینات ہوئے ہیں، جن کا اس میں ملوث ہونے کا فوری طور پر کوئی چانس نظر نہیں آتا، البتہ جو پرانا سٹاف ہے، اس پر اس الزام کی تفتیش ضرور ہونی چاہئے۔
سینئر صحافی نے مطالبہ کیا کہ انکوائری ضرور ہو لیکن یہ تفتیش شفاف ہو اور کسی کو قربانی کا بکرا بنانے سے گریز کیا جائے۔ رشوت کسی بھی سطح پر ہو، قابل گرفت و سزا ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔
سعودی عرب میں مسلم لیگ ن کے صدر خالد اکرم رانا نے کہا کہ عددی وسائل کی کمی کے باوجود سفارتخانہ میں موجود ویلفیئر اور دوسرے محکمہ کے افسران سمیت ملازمین کی کوشش رہی ہے کہ تمام آنے والی شکایات اور سفارتخانہ سے متعلق کام جلد جلد مکمل کیا جائے۔
مزدوروں سے پیسے لینے کے الزامات جھوٹے اور لغو ہیں، خالد اکرم
خالد اکرم رانا کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں ورک فورس زبادہ ہے اورسیز پاکستانیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اسی مناسبت سے پاکستانی مزدرورں کے مسائل بھی زیادہ ہیں۔ زیادہ تر مسائل کفالت سے متعلق ہیں اور اسکے علاوہ جیل خانہ جات سے متعلق ہے۔
انھوں نے کہاجہاں تک مزدورں سے پیسے لینے کی شکایات کا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں یہ لغو اور جھوٹے الزامات ہیں، کیونکہ کفالت سسٹم کی وجہ سے شکایات کا دباؤ زیادہ ہے اور سفارتخانہ بھی قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے محدود سطح تک راہنمائی کرسکتا ہے، اس میں تاخیر سائل کی طرف سے نامکمل معلومات فراہم کرنے سے بھی ہوتی ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما کاکہنا تھا کہ سائل متذکرہ وجوعات کی وجہ سے بھی خوش نہیں ہوتا، مگر میں نہیں سمجھتا اس مد میں کہ سائل سے باقاعدہ کوئی پیسہ لئے جاتے ہوں۔ ہاں البتہ کسی ملازم کا کوئی ذاتی فعل ہو تو ضرور اسکی شکایت ہونی چاہیے تاکہ اسکا سدباب کیا جاسکے۔
سفارتخانے میں کسی غبن یا پیسے لے کر کام کرنے سے متعلق ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر ندیم بھٹی کا کہنا تھا کہ اگر ایسا کچھ ہے تو اس پر برداشت کا زیرو لیول ہی ٹھیک ہے کیونکہ جو لوگ یہاں پاکستان اور اہل پاکستان کی خدمت پر مامور ہیں وہ اس طرح کے کام میں کیونکر کرملوث ہیں؟
پیسے لینے پر برداشت لیول زیرو ہی ہونا چایئے،پروفیسر ڈاکٹر ندیم بھٹی
انھوں نے کہا کہ لندن میں پاکستانی سفارتخانہ پر بھی ایسے الزامات سنے تھے اب سعودی عرب میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے تو اس میں آڈٹ اینڈ اکاوئنٹ سمیت دیگر سٹاف جو پیسے لے کرلوگوں کے کام کرتا ہے ان کی ضرور انکوائری ہونی چایئے کسی کو معاف نہیں کیاجانا چایئے۔
ڈاکٹر ندیم بھٹی کا کہنا تھا کہ بظاہر تو سابق سفیر صاحب میں ہمیں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی لیکن سفارتخانہ کے اندرونی حالات سے کوئی باہر والا آگاہ نہیں ہے یہ الزامات تو تحقیقات ہونے پر ہی ثابت ہو سکیں گے۔
انھوں نے کہا کہ میرے ذاتی خیال میں کچھ چیزیں خراب ہوئی ہوں گی تاہم شاید وزیراعظم عمران خان بھی سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانہ سے متعلق کچھ زیادہ بول گئے ہیں لیکن اگر یہ سب کو قانون کے نیچے لانے اور سعودیہ میں مقیم پاکستانیوں کی خاطر اقدام ہے تو اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ندیم بھٹی نے کہا کہ کچھ تو ایسے مسائل بھی ہیں جن میں اقامہ نہ لگنا، خروج لگے ہیں جانہیں سکتے، کمپنیاں پیسے نہیں دے رہیں یا سعودی قوانین کی خلاف ورزی پر لوگوں کے خلاف مقدمات اور کمپنیوں کے ساتھ پاکستانی لیبرز طبقہ کے معاملات ہیں تو یہ سب سفارتخانہ کر بھی نہیں سکتا ۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس لئے کہ پاکستان ایمبیسی تو صرف معاونت فراہم کرسکتی ہے اور سعودی عرب میں تو پاکستانیوں کی اتنی بڑی تعداد ہے ان کے قانونی معاملات سے نمٹنا زرا مشکل کام ہے اور اگر یہ کرنا ہے تو اس کیلئے پیش بندی اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم پاکستان کی جانب سے سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کو درپیش مسائل کے حل میں سفارتخانہ کی جانب سے سردمہری اور کوتاہی کے حوالے سے تحقیقات کے اعلان کے بعد کئی نئے انکشافات ہو رہے ہیں.
،زمینی حقائق ڈاٹ کام، سے بات چیت میں مزدوروں کا موقف تھا کہ وزیراعظم نے درست فیصلہ کیا ہے سفارتخانہ کے حوالے سے جو شکایات ہیں ان کی انکوائری ہونی چایئے۔
انکوائری ہوئی تو پیسے دینے والے خود سامنے آئیں گے، مزدور
ان کا کہنا تھا کہ مزدور تو میٹھے بول سے بھی خوش ہو جاتاہے ۔ سفارتخانہ کے سٹاف کا رویہ بھی درست نہیں ہے، جب انکوائری ہوتی تو پیسے دینے والے بھی خود سامنے آجائیں گے۔
وزیراعظم پاکستان کی طرف سے اٹھنے والے سوالات پر موقف جانے کیلئے ، زمینی حقائق ڈاٹ کام، کی طرف سے ایک سفارتخانہ کے ایک سینئر افسر سے بھی رابطہ کیاگیا تاہم انھوں نے نام نہ لکھنے کی شرط پر صرف اتنا کہا کہ سفارتخانہ میں انکوائری شروع ہو چکی ہے اس لئے یہاں سے میڈیا پر موقف نہیں دیا جاسکتا۔
ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہئے، طارق میر
الریاض میں مقیم ممتاز سماجی رہنما طارق میر نے کہا کہ سفارتخانہ پاکستان میں بعض ایسے آفیسر آ جاتے ہیں جن کا رویہ آنے والے سائلین سے ناروا ہوتا ہے اور وہ اپنی انا کے خول سے باہر نہیں نکل پاتے.
انہوں نے ‘زمینی حقائق ڈاٹ کام’ کو بتایا کہ میں گزشتہ 40 سال سے بغیر کسی معاوضہ اور دنیاوی فائدہ کے کمیونٹی کی خدمت کا فریضہ سرانجام دے رہا ہوں لیکن مجھے بھی چند افسران کی جانب سے مسائل کا سامنا رہا.
طارق میر نے اس موقع پر سفارت خانہ کے عملہ کے مثبت کردار کی بھی تعریف کی اور کہا کہ سفارتخانہ میں بعض بہت اچھے اور درد دل رکھنے والے آفسیر بھی آتے رہے ہیں جن کو کمیونٹی بہت اچھے الفاظ میں یاد کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سفارتخانہ پر لگنے والے الزامات کی غیرجانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے، الزامات ثابت ہوں تو ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے۔