تحریم عظیم
ہم پاکستان میں رہتے ہوئے چینی کھانے بہت شوق سے کھاتے تھے۔ چکن منچورین تو ہماری پسندیدہ ڈش تھی۔ اس کے علاوہ چکن شاشلک، بیف چلی ڈرائی، کنگ پاو چکن اور اسپرنگ رول بھی ہم شوق سے کھاتے تھے۔
گرچہ ہم جانتے تھے کہ ان کھانوں کا چین سے اور چین کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، اس کے باوجود ہم جب بھی چینی کھانوں کے بارے میں سوچتے تو ان سے ملتے جلتے کھانے ہی ہمارے ذہن میں آتے تھے۔ چین میں اپنا پہلا کھانا کھاتے ہوئے ہمیں احساس ہو رہا تھا کہ ہم پوری زندگی چینی کھانوں کے نام پر دھوکا کھاتے رہے تھے۔
ہم کھانا کھانے کے بعد واپس یونیورسٹی لوٹے۔ اس دن نئے طلبا کی رجسٹریشن ہو رہی تھی۔ ہماری رجسٹریشن انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ آفس میں ہونا تھی، ہم سیدھا وہیں چلے گئے۔ آدھے گھنٹے بعد ہم کمیونیکشن یونیورسٹی آف چائنہ میں ماسٹر ڈگری کے ایک پروگرام میں رجسٹر ہوچکے تھے۔
چین میں اپنا پہلا کھانا کھاتے ہوئے ہمیں احساس ہو رہا تھا کہ ہم پوری زندگی چینی کھانوں کے نام پر دھوکا کھاتے رہے تھے کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنہ چین میں صحافت کی تعلیم کے لیے بہترین تصور کی جاتی ہے۔ چینی میڈیا کے بہت سے نامور لوگ اسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔
یہ یونیورسٹی 1954ء میں بیجنگ کے مشرقی حصے میں بنائی گئی تھی۔ اس وقت اس کا نام بیجنگ براڈکاسٹنگ انسٹیٹیوٹ رکھا گیا تھا جو 2004ء میں تبدیل کرکے کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنہ کردیا گیا۔ یونیورسٹی کا رقبہ تقریباً 50 لاکھ مربع فٹ ہے اور اس میں کل 15 ہزار طالب علم زیرِ تعلیم ہیں۔
ہماری یونیورسٹی کا رقبہ پنجاب یونیورسٹی سے کئی گُنا کم ہے لیکن چینیوں نے یونیورسٹی کا ایک ایک انچ کا بھرپور استعمال کیا ہوا ہے۔ یونیورسٹی میں تدریسی اور رہائشی عمارتوں کے علاوہ آبشاریں اور جھیلیں بھی موجود ہیں۔ دن بھر کے تھکے ہارے طلبہ شام کو ان جھیلوں کے کنارے ٹہلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
یونیورسٹی کا اپنا ٹی وی اسٹیشن بھی ہے۔ اس اسٹیشن کا پورا انتظام یونیورسٹی کے طلبہ چلاتے ہیں۔ یونیورسٹی میں ایک میڈیا میوزیم بھی موجود ہے جہاں ذرائع ابلاغ کو مختلف آلات کی صورت میں قدیم زمانے سے جدید زمانے میں داخل ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی میں دو تین جگہوں پر صحافیوں، کیمرا پرسنز اور ڈائریکٹروں کے کئی مجسمے بھی نصب کیے گئے ہیں۔
ہم دوپہر کا کھانا تو ایک حلال ریسٹورینٹ سے کھا چکے تھے۔ اب اپنے کمرے میں بیٹھے شام کے کھانے کی فکر کر رہے تھے۔ دوپہر میں تو چینی چاول جیسے تیسے کرکے کھا لیے تھے، رات کو ان کے بارے میں سوچنے کا بھی دل نہیں کر رہا تھا۔ ہمارے بیگ میں ہر قسم کی دال اور مصالحے موجود تو تھے مگر انہیں پکانے کے لیے ہمارے پاس کوئی برتن نہیں تھا۔ اگرچہ ہاسٹل میں باورچی خانہ تھا لیکن وہاں بس ہاٹ پلیٹ اور مائیکرو ویو اوون رکھے ہوئے تھے اور طلبہ کھانا پکانے کے لیے اپنے برتن استعمال کرتے تھے۔
ہم نے اس وقت اپنے بیگ سے انسٹینٹ نوڈلز کے پیکٹ اور ایک پلاسٹک کا ڈبہ نکالا جس میں امی نے کچھ بسکٹ اور نمکو ڈال دی تھی۔ ہم نے ڈبے میں نوڈلز کھول کر ڈالے، تھوڑا سا پانی ڈالا اور ڈبے کو بند کرکے پانچ منٹ کے لیے مائیکرو ویو اوون میں رکھ دیا۔ پانچ منٹ بعد نوڈلز تیار تھے۔ یہ ہمارا چین میں پہلا دن تھا اور ہم نوڈلز کی سرزمین پر پاکستان سے لائے نقلی نوڈلز کھا رہے تھے۔
اگلے دن تھوڑی ہمت ہوئی تو ہاسٹل سے باہر نکل کر یونیورسٹی کا جائزہ لیا۔ معلوم ہوا یونیورسٹی میں 4 کینٹین ہیں جن میں سے ایک صرف مسلمان طالب علموں کے لیے مختص ہے۔ ہم پورا ہفتہ وہاں سے کھانا کھاتے رہے۔ اس وقت ہمیں کسی کھانے کا نام نہیں آتا تھا۔ بس انگلیوں کے اشارے سے جو کھانے کے قابل لگتا، پلیٹ میں نکلوا لیتے۔ اچھا لگتا تو اگلی بار وہی لے لیتے ورنہ کوئی نئی چیز ٹرائی کرتے۔
اس ایک ہفتے میں ہمیں پتہ چلا کہ چینی ہماری طرح فرائڈ رائس نہیں بلکہ ابلے ہوئے چاول کھاتے ہیں۔ چینی ہر کھانے کے ساتھ سوپ بھی پیتے ہیں جو چاولوں کی پچ بھی ہوسکتا ہے اور دھنیا اور مولی ڈال کر ابالا گیا پانی بھی ہوسکتا ہے۔ ہم نے ان دنوں ایک اور سبق یہ سیکھا کہ کھانے کے معاملے میں کسی دوسرے کی پسند ناپسند پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ لازمی نہیں کہ اس انسان کو جو ذائقہ اچھا لگتا ہو آپ کو بھی وہ اچھا ہی لگے۔ ہمارے ایک سینئر نے ہمیں انڈے اور ٹماٹر کی ایک ڈش کے بارے میں کہا کہ یہ بہت مزے کی ہوتی ہے۔ ہم نے ایک دن ابلے ہوئے چاولوں پر وہی ڈلوا لی۔ وہ دن اور آج کا دن، قسم لے لیں جو ہم کبھی اس کے پاس بھی پھٹکے ہوں۔
ایک سینئر نے ہمیں انڈے اور ٹماٹر کی ایک ڈش کے بارے میں کہا کہ یہ بہت مزے کی ہوتی ہے
کینٹین میں ہماری پسندیدہ ڈش تا پان چی تھی جو اصل میں آلو اور چکن کا سالن ہوتا ہے۔ یہ چین کے ایک صوبے سنکیانگ کا کھانا ہے۔ کسی اچھے ریسٹورینٹ سے کھائیں تو کافی مزے کی لگتی ہے۔ یونیورسٹی کے کینٹین کا کھانا چین میں بھی پاکستان کی کسی یونیورسٹی کی کینٹین کے کھانے کی طرح بدمزہ ہی ہوتا ہے۔
ہم نے ایک ہفتے میں ہی چینی کھانا کھانے سے پکی توبہ کرلی تھی۔ ہمارے سینئر ہمیں قریبی مارکیٹ لے گئے جہاں سے ہم نے دکاندار کی من پسند قیمت پر ایک عدد فرائی پان اور ایک عدد رائس کوکر خرید لیا۔ پھر ہم پورا سال اپنے ہاسٹل میں پاکستانی کھانے بناتے اور کھاتے رہے۔
ہمیں لگتا ہے کہ اس وقت ہمارے ذہن میں چینی کھانوں کے متعلق ایک خوف موجود تھا جو ہمیں ان کھانوں کو چکھنے سے بھی روک رہا تھا۔ آہستہ آہستہ حوصلہ کیا تو پتہ چلا چینی کھانے میں بھی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ ہر صوبے کا کھانا دوسرے سے مختلف ہے۔ کہیں نوڈلز کھائے جاتے ہیں تو کہیں چاول، کہیں مصالحے ہماری طرح بے حساب ڈالے جاتے ہیں تو کہیں ان سے مکمل پرہیز کیا جاتا ہے۔ ہاں، چینی کھانوں میں تیل کا استعمال بہت ہوتا ہے۔
پاکستان میں عموماً سمجھا جاتا ہے کہ چینی کھانے میں بالکل تیل نہیں ڈالتے۔ ہم نے یہاں اس کے بالکل الٹ دیکھا۔ چینی کھانوں میں تیل کا استعمال دل کھول کر کرتے ہیں۔ البتہ کھانا جلد کھا لیتے ہیں مثلاََ دوپہر کا کھانا 11 سے 12 کے درمیان کھایا جاتا ہے اور شام کا 5 سے 6 کے درمیان۔ اس کے بعد چینی واک کرتے ہیں، جاگنگ کرتے ہیں یا اپنی پسند کی کوئی سی بھی ورزش کرتے ہیں، شاید اسی وجہ سے ہمارے جتنے پیٹوں سے محروم ہیں۔
چین کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں حلال ریسٹورینٹ آسانی سے مل جاتے ہیں۔ ہماری یونیورسٹی کے پاس ہی 5 حلال ریسٹورینٹ تھے۔ چین بھر میں زیادہ تر حلال ریسٹورینٹ سنکیانگ کے لوگوں نے کھولے ہوئے ہیں۔ وہ وہاں سنکیانگ کے کھانے سرو کرتے ہیں جو بہت حد تک پاکستانی کھانوں سے ملتے جلتے ہیں۔ ان ریسٹورینٹس کے باہر مسجد کی شبیہہ بنی ہوتی ہے یا کلمہ لکھا ہوتا ہے یا عربی میں حلال لکھا ہوتا ہے۔ ان ریسٹورینٹ میں شراب بھی عام ملتی ہے۔ جس کا جی چاہے وہ اپنے کھانے کے ساتھ بئیر کا آرڈر دے سکتا ہے۔
چینی کھانے کو ہاتھ لگانا اچھا نہیں سمجھتے۔ وہ ہر چیز چاپ اسٹک سے کھاتے ہیں۔ کوئی ایسی چیز جو ہاتھ میں پکڑ کر کھائی جاتی ہو اس کے لیے وہ پلاسٹک کے دستانے پہنتے ہیں اور پھر اس چیز کو پکڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ پیزا ہٹ اور ڈومینوز میں پیزا کے ساتھ بھی یہی دستانے دیے جاتے ہیں۔ ساتھ گرم پانی کا گلاس۔ چینی پینے کے لیے گرم پانی کا ہی استعمال کرتے ہیں۔
( بشکریہ ڈان)