اتنی اجرت میں گزارا نہیں ہونے والا
شہریار خان
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ سچ لکھنا ہی کیوں ضروری ہے؟۔ کسی طاقتور کو دشمن بنانا ہی کیوں لازم ہے؟۔ وہ ہی بات کیوں نہیں کہی اور لکھی جا سکتی جو مقبولیت پائے؟۔ ہر دور میں کیوں کلمہ حق بلند کرنا ہے؟۔ میں بھی بڑے سے عالی شان مکان میں اے سی کے یخ ماحول میں نرم و گداز صوفے میں دھنس کر چند مخصوص سیاستدانوں کو گالیاں کیوں نہیں دے سکتا؟
اس کے بدلے میں بڑا عہدہ بھی مل سکتا ہے، فالوورز بھی مل جائیں گے، ایک ایک ٹویٹ پہ لاکھوں لائیکس ہوں گی، یو ٹیوب پر پروگرام کروں تو ایک ہی رات میں واچ آورز پورے ہو جائیں اور چند دنوں میں سلور اور پھر گولڈن بٹن بھی مل جاتے ہیں۔ وزرا تک تو کیا وزیر اعظم تک بھی رسائی ہوتی ہے۔
وزیر اعظم اپنے پاس بٹھا کر بتاتا ہے کہ کسے گالی دینی ہے اور کس کی تعریف کرنی ہے۔ کس پرانی بوتل میں نئی شراب بھرنے کے کام کی بلے بلے کرنی ہے تو کس پرانے منصوبے پر نئی تختی لگانے پر سیاسی کارکن کی طرح نعرہ بازی کرنی ہے۔۔ یہ سب بھی بتایا جاتا ہے اور یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ مجھ سے سوال کیا کرنا ہے؟
چوہدری غلام حسین کی طرز پر انٹرویو کیسے کرنا ہوتا ہے یہ بھی صحافت کے طالبعلموں کو بتایا جاتا ہے۔ کئی ایسے ہیں جو یہ واردات سمجھ گئے ہیں۔ کچھ کو پچھلے ادوار میں یہ باتیں سمجھ آ گئی تھیں تو کچھ نے اس دور کے لیے دعائیں مانگ رکھی تھیں، مگر اکثر ایسے بیوقوف ہیں جو یہ سمجھتے ہی نہیں۔
کچھ پچھلے دور میں صالحانہ ظافرانہ انداز اپنائے ہوئے تھے تو کچھ آج صابرانہ و شاکرانہ طریقہ پر چل رہے ہیں۔ لیکن پچھلے ادوار اور اس موجودہ دور میں فرق صرف اتنا ہے کہ پچھلوں نے کسی صحافی کو نوکری سے نہیں نکلوایا تھاجبکہ موجودہ نے کسی بھی صحافی کو نوکری پر رہنے نہ دینے کی قسم کھا رکھی ہے۔
کسی کسی وقت دل چاہتا ہے کہ چیخوں، چلاﺅں، اونچی اونچی آواز میں روتا جاﺅں۔۔ اس لیے نہیں کہ میرے حالات خراب ہیں بلکہ اس لیے کہ جب کوئی صحافی مجھے بتاتا ہے کہ بیروزگاری کے باعث بچے سکول سے اٹھا لیے ہیں، گیس کا یا بجلی کا کنکشن کٹ چکا ہے یا یہ کہ مالک مکان نے کرایہ ادا نہ کرنے پر اس کا سامان گلی میں رکھ دیا ہے تو اپنی بے بسی پہ روتا ہوں کہ میں اپنے بھائی کی مدد نہیں کر پاتا۔
جب اپنے حالات دیکھتا ہوں تو رب تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ بہت سے لوگوں سے بہت بہتر ہوں لیکن انسان ہوں کبھی کبھی خیال یہ بھی آتا ہے کہ کیوں اس بے بسی میں جینا ہے؟ یہ بھی خیال آتا ہے کبھی کہ قلم کی سیاہی اگر کوئی اور دے تو اس میں برائی ہی کیا ہے؟
پھر خیال آتا ہے کہ میرے والد گرامی کہا کرتے تھے اپنے قلم میں اگر سیاہی کسی اور کی ہو تو اس سے صفحہ ہی نہیں چہرہ بھی کالا ہو جاتا ہے۔ الفاظ میں تاثیر صرف اپنی سوچ سے ہی آ سکتی ہے۔ ادھار کی سوچ کی پسندیدگی کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔ سچائی کی روشنائی سے لکھے الفاظ مرتے نہیں لیکن جھوٹ کی سیاہی زیادہ ٹھہرتی نہیں۔
جب بھی مشکل میں ہوتا ہوں تو ابو جی بہت یاد آتے ہیں، پھر ان کی کتاب پڑھتا ہوں تو دل ہلکا ہو جاتا ہے۔ ان کا ایک شعر ہے:
یہ سوچ بچوں کی مرے جو باغیانہ ہے
اسے کہو کہ لہو کو لہو پہ جانا ہے. !!!
یعنی جب خون میں ہی بغاوت ہو تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ نرم و گداز صوفے اور ائیر کنڈیشنڈ ماحول پسند آئے۔ جب جنرل ضیاءالحق نے اپنی میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر حکومت کی تو میرے والد نے کہا جنرل صاحب، لوگ کہتے ہیں کہ اگر بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر حکومت کی تو آپ اسلام کے نام پر حکومت کر رہے ہیں۔
جنرل ضیا نے کہا کون کہتے ہیں؟۔ انہوں نے کہا اخبار پڑھیں سب یہی کہہ رہے ہیں۔ ایک مرتبہ نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا گیا، نگران حکومت قائم ہوئی ، اس نگران حکومت کے وزیر داخلہ میاں زاہد سرفراز تھے۔ انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وہ سابق حکومت کے خلاف مقدمات درج کرائیں گے اور کڑا احتساب کریں گے۔
میرے والد نے سوا ل کیا کہ آئین کی کس شق کے تحت آپ ایک منتخب حکومت کا احتساب کرسکتے ہیں؟۔ آئین کی وہ شق بتا دیں ورنہ ہمارے علم کے مطابق تو نگران حکومت صرف تین ماہ میں الیکشن کرانے کی پابند ہے۔ اس زمانے میں لائیو کم ہوا کرتی تھیں کیونکہ صرف پی ٹی وی کا دور تھا مگر اہم ہونے کی وجہ سے یہ پریس کانفرنس لائیو تھی۔
وزیر داخلہ صاحب اس سوال پہ بہت جزبز ہوئے۔ خیر جو کچھ ان کے ساتھ اس دلیرانہ صحافت کے باعث ہوا وہ الگ کہانی ہے کہ انیس سو ستر میں نوائے وقت میں چیف رپورٹر بھرتی ہوئے اور جب ریٹائر ہوئے تو ایک سب ایڈیٹر کے طور پر۔۔ یہ کہانی پھر سہی، فی الحال یہ دیکھنا ہے کہ موجودہ دور میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں؟
اب تبدیلی یہ آئی ہے کہ حکومت اب رپورٹرز کی بیٹ بھی تبدیل کراتی ہے، مالکان کو اربوں کے اشتہار اس شرط پر دئیے جاتے ہیں کہ وہ صحافیوں کو تنگ کریں گے یعنی ان کی تنخواہوں میں کٹوتی کریں گے اور کچھ کو برطرف بھی کریں گے۔ اس کے لیے شرط یہ بھی ہے کہ تمام صحافی یونینز ان معاملات پر خاموش رہیں گی.
اگر خاموشی توڑنا ناگزیر ہے تو پھر گونگلوﺅں سے مٹی جھاڑنے کے لیے ایک آدھا احتجاجی مظاہرہ کرنے کی بھی اجازت ہے لیکن خبردار کوئی بھی اس سے زیادہ کچھ کرنے کی نہ سوچے ورنہ کیرئیر ختم کر دئیے جائیں گے۔ آج حالات یہ ہیں کہ ورکرز کی آواز اٹھانے والوں کی آواز بننے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ 80 فیصد صحافی معاشی بدحالی کا شکار ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے.
لیکن ہماری جدوجہد کرنے والی تنظیمیں فائیو سٹار ہوٹلز میں صحافتی بدحالی پر سیمینار کرتی ہیں، وہاں ہائی ٹی سے لطف اندوز ہوتے ہمارے قائدین صحافت اس بات پر نوحہ کناں بھی ہوتے ہیں کہ اکثر صحافیوں کے گھر فاقوں کی نوبت آ چکی ہے ، پھر گفتگو کا سلسلہ اس وقت ٹوٹ جاتا ہے جب چکن کباب یا تکہ بوٹی ڈش میں ختم ہوتی ہے اور ویٹر کو آواز دینا پڑتی ہے، ایسے میں کسے میری بھوک یاد رہے گی؟۔صحافیوں کی معاشی پریشانیوں کی بات ان فائیو سٹار ہوٹل میں ہوتی ہے یہ بھی ہمارے لیے اعزاز ہی تو ہے.
نجانے کیوں ہمارے صحافی پریشان ہیں حالانکہ بے چارے ہمارے قائدین صرف ہمارے غم میں ہی تو فائیو سٹار ہوٹلوں میں جاتے ہیں اور ہماری بھوک، پریشانیوں کی بات کرتے ہیں۔بے چارے ہمارا اتنا خیال تو کرتے ہیں کہ ہمارے لیے فائیو سٹار ہوٹل میں بات کرتے ہیں۔۔ باقی آپ کی مشکلات کی جہاں تک بات ہے وہ بھی دور ہو جائیں گی بس دو چار ممالک کے دورے تو کر لیں۔۔
ویزے اور ٹکٹ انتظار کر رہے ہیں اور یقین مانیں آپ کی بھوک کا تو ان کو اتنا خیال ہے کہ بیرون ملک بھی جو لنچ ڈنر کریں گے جہاں جہاں شاپنگ کریں گے سب آپ کو لائیو دکھائیں گے۔ میرے جیسے کئی لوگ تو اب یہ سوچنے پر مجبور ہو چکے ہیں:
دل جلا کے بھی اجالا نہیں ہونے والا
یہ جو آنسو ہے ستارہ نہیں ہونے والا
چھوڑ دیں کار محبت یہی بہتر ہو گا
اتنی اجرت میں گزارا نہیں ہونے والا