نسل در نسل غلطیاں
حامد میر
محترمہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا اور نواز شریف کی بیٹی ستمبر 2020 میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے تو اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال آگیا تھا۔ پی ڈی ایم ایک طرف عمران خان کی حکومت کے لئے ایک چیلنج بن کر ابھرا تو دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف کے لئے امتحان بن گیا۔
اپوزیشن جماعتوں کے اس اتحاد کا مقصد عمران خان کی حکومت کو گرانا تھا لیکن ابھی اس اتحاد کے دو تین جلسے ہوئے تھے کہ بلاول بھٹو زرداری ایک ماہ کے لئے گلگت بلتستان چلے گئے اور انہوں نے گلگت بلتستان کی انتخابی مہم میں کلین سویپ کے دعوے شروع کردیے۔ گلگت بلتستان کا الیکشن قریب آیا تو مریم نواز بھی وہاں پہنچ گئیں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑا اور آخر کار گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بن گئی۔ بلاول نے کچھ دن دھاندلی کا شور مچایا اور ایک دفعہ بھر پی ڈی ایم کے جلسوں میں شرکت شروع کر دی۔
مارچ 2021میں سینیٹ کے الیکشن میں پی ڈی ایم نے اسلام آباد سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو اپنا مشترکہ امیدوار بنایا۔ گیلانی صاحب اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کی کامیابی میں مسلم لیگ (ن) کا کردار بہت اہم تھا لیکن انہوں نے ہر قیمت پر سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بننے کی کوشش میں پی ڈی ایم کو توڑ دیا۔
محترمہ بےنظیر بھٹو کا بیٹا اور نواز شریف کی بیٹی بمشکل چھ ماہ بھی ایک ساتھ نہ چل سکے۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے پر ’’سلیکٹڈ‘‘ کے آوازے کسے گئے اور معاملہ یہاں تک پہنچا کہ پیپلز پارٹی والے جنرل ضیا الحق کو نواز شریف کا سیاسی باپ اور مسلم لیگ (ن) والے جنرل ایوب خان کو ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی باپ قرار دینے لگے۔ پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔
چند دن پہلے یوسف رضا گیلانی نے اپنے حامی سینیٹروں کو ظہرانے پر بلایا۔ ان میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے سینیٹر بھی شامل تھے۔ انہی میں سے ایک سینیٹر نے بڑے مزے لے کر مجھے ظہرانے میں ہونے والی باتیں سنائیں اور کہا کہ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے مزے لوں گا۔
ہمارے اس سینیٹر دوست کا دن گیلانی کے ساتھ اور شام سنجرانی کے ساتھ گزرتی ہے۔ فی الحال میرا موضوع یہ نہیں ہے کہ ’’باپ‘‘ کے سینیٹرز نے کس کے حکم پر گیلانی کی حمایت کی؟ میرا موضوع یہ ہے کہ ہمارے کچھ سیاست دان نسل در نسل غلطیاں کرتے ہیں لیکن غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ ایک طرف بلاول صاحب فرماتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے کچھ لوگوں کو گیلانی صاحب کی کامیابی ہضم نہیں ہوئی حالانکہ گیلانی صاحب مسلم لیگ (ن) کے بغیر سینیٹر نہیں بن سکتے تھے۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) نے اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملے پر پیپلز پارٹی کے ساتھ پھڈا کیا اور اب مستعفی ہونے کی بجائے ڈسکہ اور کراچی سے ضمنی الیکشن لڑ رہی ہے۔ دونوں جماعتیں اس اعلامیے کو فراموش کر چکی ہیں جو ستمبر 2020میں آل پارٹیز کانفرنس نے منظور کیا تھا۔
اس اعلامیے کا مقصد پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی قائم کرنا اور غیرسیاسی طاقتوں کی سیاست میں مداخلت بند کرنا تھا۔
اس اعلامیے کی منظوری کے بعد کبھی پیپلز پارٹی اور کبھی مسلم لیگ ن بیک چینل سے انہی طاقتوں سے مذاکرات کرتی رہی ہیں جن پر اپنے جلسوں میں تنقید کیا کرتی تھیں۔ ان بڑی اپوزیشن جماعتوں کے قول و فعل کا تضاد ہی وزیراعظم عمران خان کی بقا کا راز ہے۔
میں نے اپنی صحافتی زندگی میں اتنی نااہل حکومت نہیں دیکھی جتنی نااہل عمران خان کی حکومت ہے لیکن اس کے باوجود عمران خان کی حکومت قائم ہے کیونکہ اپوزیشن ان سے زیادہ نااہل ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی ایک خاتون رکن قومی اسمبلی کو اس ناچیز نے ایک ٹی وی چینل پر یہ کہتے سنا کہ ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کو ڈیڈی کہتے تھے۔ اگلے روز ان صاحبہ سے پارلیمنٹ میں ملاقات ہو گئی۔
میں نے پوچھا کہ کیا آپ جانتی ہیں کہ بھٹو صاحب نے معاہدہ تاشقند کے بعد ایوب خان کی حکومت چھوڑ دی تھی اور 1967میں پیپلز پارٹی بنا کر ایوب خان کے خلاف تحریک میں حصہ لیا تھا؟ موصوفہ نے معصوم سی شکل بنا کر کہا نہیں مجھے ’’اتنی پرانی بات‘‘ کا نہیں پتہ۔ میں نے پوچھا آپ کو یہ تو پتہ ہوگا کہ آپ کے سارے بزرگ کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کے ساتھ تھے؟ کہنے لگیں جی ہاں یہ تو پتہ ہے لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ کل رات آپ قوم کو بھٹو اور ایوب خان کا تعلق سمجھا رہی تھیں۔ یہ سن کر وہ مسکرائیں اور بولیں اگر بلاول ہمیں سلیکٹڈ کہے گا تو ہم بھی اسے یاد دلائیں گے اس کا نانا کیا تھا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کو یہ یاد نہیں رہا کہ 2006میں محترمہ بےنظیر بھٹو اور نواز شریف نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کئے تھے اور اس میثاق کا مقصد وہی تھا جو ستمبر 2020میں اے پی سی کے جاری کردہ اعلامیے کا تھا۔
2006کے میثاقِ جمہوریت کی وجہ ماضی کی آمر حکومتوں کا سیاستدانوں کے ساتھ سلوک تھا۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ایوب خان نے پہلی دفعہ وزیر بنایا اور نواز شریف کو ضیا الحق نے وزیر بنایا لیکن دونوں مقبول عوامی رہنما اس وقت بنے جب انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغاوت کی۔ بھٹو اور نواز شریف نے کبھی بغاوت کی، کبھی مفاہمت کی لیکن طاقتور اداروں کے ساتھ نہ چل پائے۔
بھٹو نے ایوب خان کے خلاف بغاوت کی لیکن شیخ مجیب کے خلاف جنرل یحییٰ خان کا ساتھ دیا۔ اقتدار ملنے کے بعد حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ شائع کرنے سے گریز کیا، طاقتوروں کے دبائو پر معراج محمد خان جیسے لیفٹسٹ وزیروں کو کابینہ سے نکال دیا لیکن پھر پھانسی پر لٹکا دیے گئے۔ وہ چاہتے تو جان بچا سکتے تھے لیکن انہوں نے ضیا الحق کے ساتھ مفاہمت سے انکار کردیا۔
نواز شریف بھی کبھی بغاوت اور کبھی مفاہمت کرتے رہے۔ پرویز مشرف کے ہاتھوں برطرف ہوئے اور جب پرویز مشرف پر آئین سے غداری کا مقدمہ شروع ہوا تو نواز شریف حکومت نے مشرف کو پاکستان سے بھگا دیا اور انہوں نے طاقتوروں کے دبائو پر کبھی پرویز رشید اور کبھی مشاہد اللہ کو کابینہ سے فارغ کیا لیکن آخر کار انہیں وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کیا گیا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) مت بھولیں کہ میثاقِ جمہوریت کے بعد محترمہ بےنظیر بھٹو نے پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کیا لیکن این آر او کے بعد بھی محترمہ کو شہید کردیا گیا۔
شہباز شریف نے ہمیشہ مفاہمت کی سیاست کی لیکن اس سیاست کے باوجود جھوٹے مقدمات میں جیل بھجوا دیے گئے۔ دونوں جماعتوں کے ساتھ مفاہمت کے نام پر دھوکہ ہوا ہے۔ محترمہ بےنظیر بھٹو کی آخری کتاب کا نام ہی ’’مفاہمت‘‘ تھا۔
اس کتاب میں انہوں نے واضح الفاظ میں لکھا کہ پرویز مشرف نے این آر او کے نام پر ان کے ساتھ دھوکہ کیا۔ بار بار دھوکہ کھانے کے باوجود ان بڑی جماعتوں نے سبق نہیں سیکھا کیونکہ یہ عوامی سیاست کے ذریعہ تبدیلی لانے پر نہیں بلکہ پاور پارلیٹکس کے ذریعے چند عہدے حاصل کرنے پر یقین رکھتی ہیں۔
انہوں نے ابھی تک اپنی جماعتوں کے اندر جمہوریت قائم نہیں کی۔ جب تک ان جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں آئے گی یہ مضبوط نہیں ہوں گی اور بیک ڈور چینل سے مذاکرات کے ذریعہ اقتدار میں آنے پر مجبور ہوں گی۔ ان جماعتوں کو حقیقی تبدیلی کے لئے پہلے اپنے اندر جمہوریت قائم کرنا ہوگی۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ)