ریپ کا ثبوت’ ریاست پر قرض یا شہریوں پر فرض
عصمت جبیں
پاکستان میں انصاف ہے تو مہنگا۔ اسی لیے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سمیت سبھی سیاسی جماعتیں سستے انصاف کے وعدوں پر عوام سے ووٹ مانگتی ہیں۔ اب لیکن اسی سستے انصاف کا حصول مظلوم شہریوں کو بظاہر مہنگا پڑے گا
صوبے خیبر پختونخوا کے فورینزک ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے حال ہی میں یہ تجویز سامنے آئی کہ ریپ کا شکار ہونے والی خواتین اور لڑکے لڑکیوں کو ضروری طبی معائنے کے لیے فی کس پچیس ہزار روپے ادا کرنا ہوں گے۔ اگر ڈی این اے ٹیسٹنگ کی اضافی ضرورت ہو، تو اس کے لیے اٹھارہ ہزار روپے علیحدہ سے ادا کرنا پڑیں گے۔ صوبے خیبر پختونخوا کا اپنی نوعیت کا یہ واحد شعبہ خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں واقع ہے جو ایک مصروف جگہ ہے۔ وہاں نہ صرف صوبے بھر بلکہ ملک کے دیگر علاقوں سے بھی فورینزک ٹیسٹنگ کے لیے کیسز آتے ہیں۔ ریپ کا کوئی بھی مقدمہ درج ہو، ضرورت فورینزک شواہد کی پڑے، تو بات اسی ڈیپارٹمنٹ میں پہنچتی ہے۔
اس ڈیپارٹمنٹ کے سرکردہ اہلکاروں کی رائے میں حکومتی وسائل کی مدد سے اخراجات پورے نا ہونے کی وجہ سے اور پولیس کا تفتیشی بجٹ کم ہونے کے باعث اس کے فورینزک ٹیسٹنگ کے اخراجات کی ادائیگی نہ کر سکنے کے پیش نظر اس شعبے کے اپنے اخراجات پورا کرنے کے لیے یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز نے سترہ مختلف اقسام کی نئی فیس تجویز کیں۔ ان نئی فیس میں ریپ کیسز میں طبی معائنے اور ڈی این اے ٹیسٹ کی فیس بھی شامل ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں 2015 سے لے کر 2020 تک پولیس نے 22 ہزار سے زائد ریپ کیسز رجسٹر کیے۔ ایسے مقدمات کی یومیہ اوسط گیارہ بنتی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ سماجی بدنامی اور شرمندگی کے خوف اور قوانین میں سقم ہونے کی وجہ سے ریپ کے صرف تقریبا 40 فیصد کیس ہی درج ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے اندازوں کے مطابق گزشتہ چھ برسوں کے دوران پاکستان میں ریپ کے 60 ہزار کے قریب واقعات رونما ہوئے، جن میں متاثرین کی بہت بی بڑی اکثریت کا تعلق غریب سماجی طبقات سے تھا۔
پاکستان میں کسی بھی گھرانے کے کسی فرد کے ریپ کا شکار ہو جانے کی صورت میں اب اگر پولیس کو اطلاع دینے کے بعد باقاعدہ ایف آئی آر کی قانونی حیثیت کے لیے طبی معائنہ کروایا جائے گا، تو 25 ہزار روپے ادا کیے جانا لازمی ہوں گے۔ حتمی حد تک مستند قانونی شواہد کے لیے اگر متاثرہ فرد کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جائے گا، تو اس کے لیے مزید 18 ہزار روپے دینا ہوں گے۔ مجموعی طور پر یہ رقم 43 ہزار روپے بنتی ہے۔ اب اگر ریپ کے اوسطاروزانہ 11 متاثرین انصاف کے طلب گار ہوں اور اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے مصدقہ ثبوت عدالتوں میں پیش کرنا چاہتے ہوں، تو وہ فورینزک ڈیپارٹمنٹ کو یومیہ پونے پانچ لاکھ روپے ادا کریں گے۔ سالانہ بنیادوں پر یہ رقم سترہ کروڑ روپے سے زائد بنتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کیسی ریاست بنتا جا رہا ہے، جہاں ریپ کا شکار ہونے والے شہری بھی حکومت کے لیے مالی آمدنی کا ذریعہ بنائے جا رہے ہیں؟ سستا انصاف کیا اسے کہتے ہیں؟ شہریوں کو سستے اور جلد انصاف کی فراہمی تو ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے۔ عوام سے انصاف کی اسی سستی ترسیل کے وعدے تو سیاستدان کرتے ہیں۔ انصاف دلوانا ریاست پر وہ قرض ہوتا ہے جو اسے اپنے شہریوں کو لوٹانا ہوتا ہے، نہ کہ ریپ جیسے قابل مذمت جرم کے شکار شہریوں یا ان کے اہل خانہ سے فیس کے نام پر بڑی مالی ادائیگیوں کے مطالبات کیے جائیں اور خزانہ حکومت کا بھرا جائے۔
خیبر پختونخوا کے فورینزک ڈیپارٹمنٹ کی نئی مالیاتی تجویز دراصل بذات خود ایک مہنگا ثبوت ہے، اس وعدے کی ناکامی کا ثبوت کہ ریاستی نظام قانون و عدل عوام کو جلد اور سستا انصاف مہیا کرے گا۔ کیا ریپ کا شکار ہونے والی بہت سی خواتین اور بچوں کا حصول انصاف کا بنیادی حق اس لیے عملا? ختم ہو جائے گا کہ ان کے یا ان کے اہل خانہ کے پاس ہر کیس میں حکام کو دینے کے لیے 43 ہزار روپے نہیں ہوں گے۔
سبھی مہذب معاشروں میں کسی بھی فرد کے خلاف قتل یا ریپ جیسے انتہائی سنگین جرائم کو ریاست کے خلاف جرائم سمجھا جاتا ہے۔ مظلومین کی مدد کی جاتی ہے، نہ کہ ان سے کہا جائے کہ ان کے پاس ہو یا نا ہو، وہ اپنی مظلومیت ثابت کرنے کے لیے قیمت بھی خود ہی ادا کریں۔
اگر فورینزک ڈیپارٹمنٹ کی ریپ کے کیسز میں ٹیسٹنگ کی مجوزہ فیسیں منظور کر لی گئیں، تو حکومت کو آئندہ ہر سال ہزاروں ٹیسٹوں سے کروڑوں کی آمدنی ہو سکتی ہے۔ لیکن ریاست اگر خواتین اور بچوں کو ریپ کے خلاف تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے، تو اس ناکامی کا اسے فی کس جرمانہ کتنا ہو گا؟ کیا ریاست یہ جرمانہ ادا کر سکے گی؟
( بشکریہ ، ڈی ڈبلیو ڈاٹ کام)