میاں نوازشریف کی واپسی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے؟
شمشاد مانگٹ
وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ سابق وزیراعظم نوازشریف کو واپس لانے کیلئے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سے بھی بات کریں گے۔بورس جانسن وزیراعظم عمران خان کے کرکٹ کے زمانے کے دوست ہیں۔
لیکن پرجوش وزیراعظم عمران خان کا مقابلہ تجربہ کار میاں نوازشریف سے ہے۔ایسی خبریں مل رہی ہیں کہ میاں نوازشریف نے برطانیہ میں اپنا قیام طویل کرنے کیلئے بورس جانسن کی متعلقہ وزیر پریتی سشیل سے رابطے بڑھا دئیے ہیں۔
پریتی سشیل کے والدین کا تعلق یوگنڈا میں آباد بھارتی نژاد خاندان سے ہے۔پریتی برطانیہ میںپیدا ہوئی البتہ برطانیہ میں مقیم بھارتی باشندے انکی انتخابی مہم میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔
پریتی سشیل بھی میاں نوازشریف کی طرح تجربہ کار کھلاڑی سمجھی جاتی ہیں۔بورس جانسن سے پہلے ڈیوڈ کیمرون اور ٹریسامے کی کابینہ میں بھی وزیر اور کنزرویٹو فرینڈز آف اسرائیل کی وائس چیئرپرسن رہ چکی ہیں اور2017ءمیں گورنمنٹ آف اسرائیل کے حکام سے سیاسی ملاقاتوں کے سکینڈل میں ملوث ہونے کے باعث اپنی وزارت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی تھیں۔
اب چونکہ برطانیہ کی ہوم سیکرٹری یعنی وزیر داخلہ ہیں اس لئے میاں نوازشریف کو وطن واپسی کی دوائی یا انہیں اپنا قیام طویل کرنے کا نسخہ اسی پریتی سے ملنا ہے۔لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا بورس جانسن سے تعلق کام دکھاتا ہے یا پھر بھارتیوں کی ہر دلعزیز برطانوی وزیرداخلہ اپنی مہارت دکھاتی ہیں۔
دوسری طرف برطانوی قوانین بھی وزیراعظم عمران خان سے زیادہ میاں نوازشریف کو سپورٹ کر رہے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ قرار دی جارہی ہے کہ میاں نوازشریف نے برطانیہ میں ایسا کوئی جرم نہیں کیا کہ انہیں برطانیہ سے جبری ڈی پورٹ کردیا جائے۔
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے دونوں صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کو مکمل برطانوی حقوق حاصل ہیں اور اگر برطانوی حکومت میاں نوازشریف کو”دیس نکالا“ کا حکم دے بھی دے تو پھر بھی برطانوی عدالتیں انہیں برطانیہ سے نکلنے نہیں دیں گی۔
پاکستان کی حکومت کی طرف سے برطانیہ کو میاں نوازشریف کی واپسی بارے لکھا گیا خط ہوائی فائرنگ کے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ برطانوی قانون کے مطابق برطانیہ میں موجود کسی بھی شہری کو اس وقت تک بے دخل نہیں کیا جاسکتا جب تک اس نے ایسا جرم نہ کیا ہو جس کی کم از کم ایک سال قید بھی بھگت چکا ہو۔
اس لحاظ سے میاں نوازشریف کیخلاف سارے مقدمے اور عدالتی فیصلے پاکستان میں ہیں اس لئے برطانوی قانون میاں نوازشریف کو بے دخلی بارے کچھ نہیں کہے گا۔
میاں نوازشریف کو واپس لانے کے حوالے سے حکومت کی کامیابی ممکن دکھائی نہیں دیتی کیونکہ فی الحال میاں نوازشریف کو واپس لانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔
البتہ ہوسکتا ہے کہ وقت ایسا پلٹا کھائے کہ جنرل پرویز مشرف کی طرح عمران خان میاں نوازشریف کو وطن واپس آنے سے روکیں اور میاں نوازشریف وطن واپسی کی ضد پکڑ جائیں۔البتہ اس بار مقابلہ سخت بھی ہے اور دلچسپ بھی ہے۔
اس مقابلے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ برطانوی وزیرداخلہ پریتی سشیل جمائمہ کے بھائی کی کلاس فیلو بھی ہیں۔عین ممکن ہے کہ جمائمہ ایک بار پھر وزیراعظم عمران خان کے لئے آسانی پیدا کردیں اور یہ بھی خبر ہے کہ جمائمہ میاں نوازشریف کی بیماری کے حوالے سے برطانیہ میں رٹ دائر کرنے کیلئے اپنا ہوم ورک مکمل کرچکی ہیں.
جمائمہ کے قریبی حلقوں نے عندیہ دیا ہے کہ عمران خان کی سابق اہلیہ برطانوی عدالتوں میں ثابت کریں گی کہ میاں نوازشریف بیمار نہیں بلکہ سیاسی بھگوڑا ہے۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟