کالج میں ریپ ہوا تو لڑکی کا قصور ہوگا؟
’’ہر گائے دودھ دیتی ہے، گائے ایک جانور ہے لہٰذا ہر جانور دودھ دیتا ہے‘‘۔
یہ ہمارا بحث کرنے کا عمومی انداز ہے۔ اِس قسم کی گفتگو کو اپنے تئیں ہم ’’مدلل‘‘ سمجھتے ہیں۔ موٹروے پر خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعے کے بعد تازہ ترین دلیل مارکیٹ میں یہ آئی ہے کہ یہ سب مخلوط تعلیم کا نتیجہ ہے، یہ کہنا ہے میرے فیورٹ مولانا کا، دلیل انہوں نے یہ دی ہے کہ جہاں آگ اور پٹرول اکٹھے ہوں گے وہاں یہ سب تو ہوگا۔
مولانا ماشاء اللہ پوری دنیا گھومتے ہیں، یقیناً دبئی بھی گئے ہوں گے، اگر نہیں گئے تو کسی دن دونوں بھائی اکٹھے دبئی چلتے ہیں اور وہاں ساحلِ سمندر پر چہل قدمی کرکے دیکھتے ہیں کہ آگ اور پٹرول کا ملاپ کیسے ہوتا ہے۔
دبئی ایک اسلامی ملک ہے لیکن ہر عورت وہاں اپنی مرضی کا لباس پہن کر گھومتی ہے، چپے چپے پر نائٹ کلب آباد ہیں، ہر قسم کی ’’تفریح‘‘ وہاں میسر ہے، آگ اور پٹرول مل کر اگر کہیں ’’بھانبڑ‘‘ مچا سکتے ہیں تو وہ دبئی ہے مگر کسی کی مجال نہیں کہ عورت کو گھور بھی سکے۔
رہی بات مخلوط تعلیم کی تو یہ بھی بتا دیں کہ خدانخواستہ اگر مخلوط تعلیم کے کسی کالج کی لڑکی کا ریپ ہوا تو آپ لڑکی کو الزام دیں گے یا اُس کے والدین کو؟ کیا ریپسٹ کو بھی ہلکا سا طمانچہ لگائیں گے یا محض درس دے کر چھوڑ دیں گے؟
حدِ ادب رکھ کر یہ بھی پوچھنا تھا کہ ہمارے مدرسوں میں تو مخلوط تعلیم نہیں دی جاتی سو وہاں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے جو واقعات پیش آتے ہیں، انہیں کس خانے میں فِٹ کیا جاوے؟ یہی سوال اُن لوگوں سے بھی ہے جو کہتے ہیں کہ یہ سب مذہب سے دوری کا نتیجہ ہے۔ مدرسوں میں تو باقاعدہ مذہبی تعلیم دی جاتی ہے، وہاں دین سے دور ی کیسے ہو گئی؟
ریپ جدید مغربی ممالک میں بھی ہوتے ہیں اور مذہبی اور قبائلی معاشروں میں بھی، گھٹن زدہ ماحول میں بھی ہوتے ہیں اور آزاد سوسائٹی میں بھی، خدا کو ماننے والے بھی کرتے ہیں اور نا ماننے والے بھی، پڑھے لکھے بھی کرتے ہیں اور اجڈ اور جاہل بھی، فحش فلمیں دیکھنے والے بھی کرتے ہیں اور صوم و صلواۃ کے پابند بھی، دیکھنا صرف یہ ہے کہ ریاستیں اِس جرم کے سد باب کے لئے کیا کرتی ہیں اور معاشرہ کا مجموعی ردِعمل اِس ضمن میں کیا ہوتا ہے۔
ذرا ایک لمحے کے لئے تصور کریں کہ پاکستان میں کسی ایسی عورت کے ساتھ ریپ ہو جائے جو الٹرا ماڈرن ہو، جدید تراش خراش کے کپڑے پہنتی ہو اور رات کو اکیلی گھومتی ہو! اُس صورت میں اِس معاشرے کے کتنے مردوں (اور عورتوں) نے اُس ریپ کے خلاف اٹھانا تھی؟ اکثریت نے اُس عورت کی کردار کشی کرنی تھی اور اُس کی ’’حرکتوں‘‘ کو ریپ کا ذمہ دار قرار دے کر مطمئن ہو جانا تھا۔
یہ ہے وہ اصل ذہنیت جو ریپ جیسے بھیانک جرم کی بھی تاویل گھڑ لیتی ہے، اِس ذہنیت کے تحت کسی نہ کسی طور قصور عورت کا ہی نکلتا ہے۔ اگر اِس ذہنیت کی تاویل درست مان لی جائے تو پھر عورت کو صرف گھر کے کمرے میں بند کرکے محفوظ بنایا جا سکتا ہے، گھر سے باہر کسی ہنگامی ضرورت کے تحت ہی نکلا جا سکتا ہے اور وہ بھی شٹل کاک برقع میں کسی مسلح محرم کے ساتھ۔
ایک دلچسپ مثال سُن لیں۔ پچھلے دنوں امریکی فحش فلموں کے اداکار رون جیرمی کو ریپ کے الزام میں جیل کی ہوا کھانا پڑی، الزام اُن پر یہ تھا کہ انہوں نے ایک پارٹی کے دوران کسی خاتون کے ساتھ دراز دستی کی کوشش کی تھی۔
یہ اُس شخص کی بات ہو رہی ہے جس نے پوری زندگی سوائے فحش فلموں میں کام کرنے کے کچھ نہیں کیا، جس پارٹی میں یہ واقعہ پیش آیا وہاں بھی یہی کچھ ہو رہا تھا، وہ عورت بھی شاید اسی لئے وہاں آئی تھی مگر صرف ایک بات کا فرق تھا، اُس عورت نے مسٹر جیرمی کو اُس لمحے انکار کیا تھا، یہ اُس کے انکار کی طاقت تھی جس کی وجہ سے مسٹر جیرمی آج جیل میں ہیں۔ یہ تھا ریاست کا قانون اور معاشرے کا ردِعمل۔
مغربی ممالک کی مثالیں دینے کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہوتا کہ یہ آئیڈیل ملک ہیں جہاں ریپ نہیں ہوتے، مقصد اپنے اور اُن کے ماحول کا موازنہ ہوتا ہے۔ اگر ہم اِن ممالک پر فقط اِس وجہ سے طنز کرتے رہیں گے کہ انہوں نے کون سا ریپ کا سو فیصد خاتمہ کر لیا ہے تو یہ دلیل ہمارے کسی کام نہیں آئے گی کیونکہ آخری تجزیے میں بہرحال سکینڈے نیویا کے ممالک ہی دنیا میں رہنے کے لئے بہترین مانے جائیں گے۔
ریپ کا تصور جدید دنیا کا ہے، پرانے وقتوں میں ریپ کا تصور نہیں ہوتا تھا کیونکہ یہ بات ہی کسی کے ذہن میں نہیں تھی کہ عورت کی کوئی مرضی ہو سکتی ہے۔
سینکڑوں سال پہلے جب لونڈیوں کی خریدو فروخت ہوتی تھی، محل میں کنیزیں اور باندیاں رکھی جاتی تھیں تو کیا اُنہیں ہاتھ لگانے سے پہلے بادشاہ سلامت پوچھتے تھے کہ ’’اجازت ہے‘‘! ظاہر ہے کہ یہ بات ہی اُس وقت مضحکہ خیز تھی، عورتوں کو مال مویشی سمجھا جاتا تھا، اب بھی کچھ لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں اور اسی لئے ہر بات کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ بات ہم طے کریں گے کہ عورت کو کتنی آزادی دینی چاہئے اور کتنی نہیں! اصل سوال وہی ہے کہ اِس کا سد باب کیسے کیا جائے۔
دبئی اِس کی بہترین مثال ہے، یہ ایک اسلامی ملک کا ماڈل ہے، یہاں گھٹن بھی نہیں اور مغرب والی مادر پدر آزادی بھی نہیں، مساجد بھی آباد ہیں اور کلبوں میں بھی زندگی ہے، عورت عبایا میں بھی باہر نکلتی ہے اور نیکر میں بھی، غریب بھی چھوٹی موٹی عیاشی افورڈ کر لیتا ہے اور امیر کے لئے تو خیر دنیا میں ہی جنت کا بندو بست کر دیا گیا ہے، اِس کے بعد اگر کوئی کسی عورت کو بغیر اُس کی رضامندی کے ہاتھ لگاتا ہے تو اسے الٹا لٹکا دیا جاتا ہے(محاورتاً)۔
ہم نے اگر ریپ کا خاتمہ کرنا ہے تو مخلوط تعلیم ختم کرنے یا سر عام پھانسیاں دینے سے کچھ نہیں ہوگا، ایسا دبئی کی نقل کرنے سے ہوگا۔ یہ نقل صرف اِسی حد تک کرنی ہے، بادشاہت کا ماڈل اپنانے کی ضرورت نہیں۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ)