دارالہنر فاؤنڈیشن کی صدر و بانی تسنیم زہرہ کاانٹرویو
ثاقب لقمان قریشی
گلگت بلتستان کے ضلع دنیور کی رہائشی اور دارالہنر فاؤنڈیشن کی صدر و بانی محترمہ تسنیم زہرہ کہتی ہیں سہاروں کا انتظار کرنے کے بجائے دوسروں کا سہارا بننے کی کوشش کریں۔
محترمہ تسنیم زہرہ کی تعلیم، ایم-اے انگلش لینگوسٹک، ایم-اے ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ مینجمنٹ، ایم-فل انگلش لینگوسٹک، سی ٹی، بی ایڈ، ایم ایڈ (جاری ہے) ہے۔
والد محترم غلام عباس نسیم صاحب شعبہ تدریس سے وابستہ رہے ہیں۔ شاعری اور ڈرامہ نگاری بھی کرتے ہیں۔ خاندان تین بھائیوں اور تین بہنوں پر مشتمل ہے۔ بہنیں شادی شدہ ہیں، دو بڑے بھائی کاروبار کرتے ہیں جبکہ چھوٹا بھائی زیر تعلیم ہے۔
گزشتہ دنوں محترمہ تسنیم زہرہ کی ، زمینی حقائق ڈاٹ کام، سے زندگی اور اس سے جڑے مختلف پہلووں کے حوالے سے گفتگو ہوئی جو کہ سوال و جواب کی صورت ملاحظہ فرمائیں۔
سوال: معذوری کا شکار کیسے ہوئیں؟
پانچ سال کی عمر میں والد صاحب کے ساتھ سو رہی تھیں۔ صبح اٹھنے پر تیز بخار کے ساتھ بائیں پاؤں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا۔ ان دنوں پولیو کے بہت سے کیسز سامنے آ رہے تھے اس لئے ڈاکٹرز نے جناح ہسپتال کراچی جانے کا مشورہ دیا جہاں علاج کی بہترین سہولیات موجود تھیں۔ جناح ہسپتال کے ڈاکٹرز نے پولیو کی تشخیص کے بعد مستقبل کیلئے کچھ ورزشیں اور مساج تجویر کیا۔
سوال: حصول تعلیم میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
گھر کے نزدیک کوئی اچھا سکول نہ ہونے کی وجہ سے بی-اے تک تعلیم گھر میں ہی حاصل کی۔ والد صاحب سکول سے آنے کے بعد پڑھا دیا کرتے تھے۔ اسکے علاوہ سہلیاں بھی رہنمائی کر دیتی تھیں۔ بڑی جماعتوں میں حساب کے مضمون میں کچھ دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
انگریزی تسنیم کا پسندیدہ مضمون تھا بی-اے کے بعد قراقرم یونیورسٹی سے 2012 میں انگلش لینگویسٹک میں ایم-اے کیا۔
والد صاحب نے بیٹی قابلیت اور جنون کو دیکھتے ہوئے مزید پڑھنے کیلئے اسلام آباد بھیج دیا۔ یہاں تسنیم نے ایڈوانس لینگوسٹک میں ڈپلومہ کیا۔ پھر نمل یونیورسٹی سے ایجوکیشن پلاننگ اینڈ مینجمنٹ میں ایم-اے کیا۔ اس کے بعد فاؤنڈیشن یونیورسٹی سے 2019 میں انگلش لینگویسٹک میں ایم-فل کیا۔
سوال: سکول جاتے بچوں کو کیوں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا کرتی تھیں؟
جواب ملا پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ صبح سکول لگنے کے وقت گھر کے دروازے پر کھڑی ہوجایا کرتی تھی۔ دل میں سکول جانے کی شدید تمنا رہتی تھی۔ لیکن معذوری راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔
سوال: محلے کے بچے آپ کو اپنی کرکٹ ٹیم کا حصہ کیوں بنانا چاہتے تھے؟
بچوں کو پیٹو گرم اور چھپن چھپائی جیسے کھیل کھیلتا دیکھ کر کھیلنے کا جی چاہتا تھا لیکن عام بچوں والے کھیل کھیلنا ممکن نہیں تھا۔ تسنیم کہتی ہیں وہ بیساکھیوں کے سہارے بہترین کرکٹ کھیلا کرتی تھیں۔ ایک جگہ کھڑے کھڑے خوب چھکے لگایا کرتیں۔ محلے کے بچوں کی خواہش ہوتی کہ انھیں اپنی ٹیم کا حصہ بنا کر مخالف ٹیم کے خلاف ذیادہ سکور بنائیں۔
سوال: سوشل ورک کا رجحان کیسے پیدا ہوا؟
سوشل ورک والد صاحب سے وراثت میں ملا، اس میں مزید نکھار قراقرم یونیورسٹی کے استاد محترم ظفر شاکر (مرحوم) کی رہنمائی سے پیدا ہوا۔ اس طرح حصول علم کے ساتھ سماجی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا شروع کردیا۔
سوال: دارالہنر کا قیام کب عمل میں آیا اور اس کے اہداف کیا ہیں؟
تسنیم نے بتایا کہ اس نے اعلٰی تعلیم کے حصول کیلئے آٹھ سال اسلام آباد میں گزار دیئے۔ اپنے علاقے دور ہونے کی وجہ سے مسائل سے بہت حد تک ناواقف تھی۔ لاک ڈاؤن کے دنوں نے علاقے کے مسائل کو سمجھنے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔ والد صاحب سے مشاورت کے بعد لاک ڈاؤن میں دارالہنر کی بنیاد رکھی گئی۔ ادارے کا نام والد صاحب نے تجویز کیا۔
دارالہنر کے قیام کا مقصد خواندہ اور ناخواندہ خواتین کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔ یہاں خواندہ خواتین کو ای-بزنس کے ذریعے انٹرنیٹ سے پیسے کمانے کے طریقوں کے ساتھ ساتھ کوکنگ، بیکنگ، بیوٹی پارلر، سلائی کڑھائی وغیرہ بھی سکھائی جائے گی۔ علاقے کے سکولوں، کالجوں، ہوٹلوں اور دفاتر سے یونی فارم کے آرڈرز کے حصول کی کوشش کی جائے گی، سلائی کا یہ کام خصوصی خواتین سے لیا جائے گا۔
یہ تمام چیزیں ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ لیکن کام کا آغاز ہو چکا ہے اور علاقے کے لوگوں سے بہت اچھا رسپانس بھی مل رہا ہے۔
سوال: گلگت بلتستان کی خصوصی خواتین کے اہم ترین مسائل کون سے ہیں؟
گلگت بلتستان کے اہم ترین مسائل میں سب سے اہم مسئلہ آگہی کا ہے۔ والدین نہیں جانتے کہ انکی خصوصی بچی کیلئے تعلیم اور ہنر کتنی اہمیت کے حامل ہیں جبکہ خصوصی خواتین اپنے انسانی اور معاشرتی حقوق سے ناواقف ہیں اور قیدی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
سب سے پہلے معاشرے میں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوگا۔ سکولوں اور کالجوں میں رسائی کے انتظامات کرنے ہونگے۔ ایسے وکیشنل ٹرینگ انسٹیٹوٹ بنانے ہونگے جہاں جدید تقاضوں کے مطابق ہنر سکھائے جاتے ہوں۔ بلڈنگز، دفاتر، شاپنگ سینٹرز اور سیاحتی مقامات کو قابل رسائی بنانا ہوگا۔ اگر اس عمل میں علماء حضرات، سول سوسائٹی اور میڈیا حکومت کا ساتھ دے تو مختصر وقت میں خصوصی خواتین کے بہت سے مسائل حل کیئے جا سکتے ہیں۔
سوال: مشاغل کیا ہیں اور فارغ وقت کیسے گزارتی ہیں؟
پانچ وقت کی نماز اور تلاوت قرآن پاک معمول کا حصہ ہیں۔ بچپن میں نعت خوانی اور تقریر کرنے کا بے حد شوق تھا۔ بہت سے مقابلوں میں انعامات بھی حاصل کیئے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شوق بھی بدلتے چلے گئے۔ کتابیں اور ناول پڑھنے کا بہت شوق ہے اور یہ پڑھتی ہوں۔ پودے لگانا انکی دیکھ بھال کرنا بھی اچھا لگتا ہے۔ شاعری وراثت میں ملی ہے فارغ وقت میں شعر لکھنے کی کوشش بھی کرتیں ہیں۔
اپنے حصے کا دیا ہم کو جلانا ہوگا
بن کے انمول یہ دنیا کو دکھانا ہوگا
ہم ہیں معذور مگر ہم کبھی مجبور نہیں
اپنے کردار و عمل سے یہ بتانا ہوگا
کر کے حاصل یہ علم اور ہنر کی یہ دولت
سیکھنا ہوگا ہمیں اور سکھانا ہوگا
سوال: کھانے میں کیا پسند ہے؟
کوکنگ کا بے حد شوق ہے۔ ہر قسم کے کھانے پکا لیتی ہوں۔ مچھلی، دالیں اور سبزیاں کھانا پسند ہے۔ ساگ اور دال چاول پسندیدہ ترین ڈشز ہیں۔
سوال: مستقبل میں کیا کرنا چاہتی ہیں؟
بچپن سے ہی استاد بننے کا بہت شوق تھا۔ مستقبل میں کالج یا یونیورسٹی میں بطور استاد پڑھانا چاہتی ہوں۔ اسکے ساتھ ساتھ سوشل ورک جاری رکھتے ہوئے اپنے علاقے کی خصوصی خواتین کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔
سوال: خصوصی خواتین کے نام پیغام؟
کوئی نارمل شخص سیڑھی کے بغیر اوپر والی منزل پرنہیں چڑھ سکتا، سواری کے بغیر دور کے فاصلے طے نہیں کرسکتا، اسکا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کا ہر
انسان کسی نہ کسی سطح پر دوسروں کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔ خصوصی خواتین سہاروں کا انتظار نہ کریں بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دوسروں کا سہارا بننے کی کوشش کریں۔