فیک نیوز پھیلاتی ہے، رن
غریدہ فاروقی
یہ تو فلاں کی داشتہ ہے، وہ فلاں کی رکھیل ہے، یہ فلاں کے ساتھ سیٹ ہے، وہ والی بڑی چالو ہے، اس کے تو باپ کا بھی پتہ نہیں ہے یہ اور اس قسم کی ان گنت اخلاق باختہ ناقابل بیان گالیاں اور جملے خواتین صحافیوں کے لیے معمول بن چکے۔
کالم کے عنوان میں لکھا یہ ایڈٹڈ جملہ مجھ سمیت تمام ہی خواتین صحافیوں کو اکثر و بیشتر سننے کو ملتا ہے۔ اگر آپ کو اس جملے میں کوئی عیب نظر آتا ہے تو یہی اصل عیب ہے اور اگر آپ کو اس جملے میں کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا تو بھی یہی اصل مسئلہ ہے۔
یہ دوچار برس کا قصہ بھی نہیں اب تو طویل دورانیہ کی ذہنی اذیت کی داستان بن چکی کہ خواتین صحافیوں کو پاکستان میں محض اپنا کام انجام دینے کی ’سزا‘ میں جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
یہ تو فلاں کی داشتہ ہے، وہ فلاں کی رکھیل ہے، یہ فلاں کے ساتھ سیٹ ہے، وہ والی بڑی چالو ہے، اس کے تو باپ کا بھی پتہ نہیں ہے یہ اور اس قسم کی ان گنت اخلاق باختہ ناقابل بیان گالیاں اور جملے خواتین صحافیوں کے لیے معمول بن چکے۔ یقین جانیے کہ یہ گالیاں، یہ الفاظ ’قدرے مہذب‘ ہیں ان سب کی نسبت جو ہمیں روزانہ کی بنیاد پر سننے، پڑھنے اور سہنے کو ملتے ہیں۔ ایڈیٹوریل پالیسی آڑے نہ آئے اور باشرم قاریوں کے پڑھتے پڑھتے کان سرخ ہو جانے کا اندیشہ نہ ہو تو ایسی ایسی ’نادر، انوکھی شاذ القسم نرالی و یگانہ‘ نوعیت کی گالیاں القابات و جملے ہماری زندگیوں کی ٹائم لائن کا حصہ بن چکے کہ کہہ دیں تو سماعتیں پھٹ پڑیں۔ ساتھ ہی اندازہ لگایئے کہ یہ سب کچھ ہم خواتین کو اپنے باپ بھائیوں شوہروں اور خاندان کے دیگر افراد کی سوشل میڈیا پر موجودگی میں سننا پڑتا ہے۔ ایسے میں ہم کس اذیت پریشانی شرمندگی کے کڑے وقت سے گزرتی ہیں، اس کا اندازہ شاید ہی کوئی لگا سکے۔
پدرسری سے رچے بسے مردانہ معاشرے میں عورت کی تکلیف کا اندازہ لگانا تقریباً ناممکن کے قریب ہی سمجھیں۔ ایسے معاشرے میں تو عورت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خود پر ہونے والے جسمانی، ذہنی، نفسیاتی اور ہر قسم کے تشدد کے سہے برداشت کرے نہ اف کرے نہ چوں۔ یہی ایک ’اچھی اور معاشرے کے لیے قابلِ قبول عورت‘ کی نشانی ہے۔ ایسے میں ایک نہیں دو نہیں درجنوں خواتین اکٹھی ہو جائیں عہد کر لیں کہ بس اب بہت ہو گیا اب مزید نہیں سہنا اور یہ عزم کرتے ہوئے معاشرے کو وہ آئینہ دکھا دیں کہ جس کا عکس بصارتوں کے لیے تکلیف دہ اور انا سے لبریز بصیرتوں کے لیے ناقابل تسلیم ہو تو پھر وہی ردعمل آتا ہے جو ہم سب نے سہا۔
میری کئی ساتھی خواتین کئی کئی سالوں سے اپنے اوپر ہونے والا یہ تشدد اور اذیت بہادری سے برداشت کیے جا رہی ہیں۔ میں خود 2014 سے ان تمام حملوں کا شکار ہوں۔ ایک خبر دے دی، ایک پروگرام کر لیا، کوئی رپورٹ لکھ دی، کوئی انٹرویو کر لیا، الغرض اپنے کام کے کسی بھی پہلو کو اجاگر کر لیا، بھوکے بھیڑیوں کی طرح ایک بڑا جتھا حملہ آور ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔
ہم میں سے کئی ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں، کئی کے خاندانی تعلقات بکھر جاتے ہیں، بہت سوں کے بچوں پر اس اذیت کے اثرات پڑے جو ان کی ماؤں نے اپنے اوپر برداشت کیا، کئی خواتین نے نوکریاں گنوائیں، عزت نفس تو سب کی پامال کی گئی۔ بہت سی خواتین زندگی بھر کے احساس کمتری اور احساس تذلیل کا شکار ہو جاتی ہیں۔
تاعمر تاحیات لگنے والے منفی ٹیگ تو خیر کسی شمار میں ہی نہیں آتے۔ یہ سب آسان نہیں یہ سب سہنا سہل نہیں لیکن پھر بھی آفرین ہے ان تمام خواتین صحافیوں پر جو ان سب کے باوجود حوصلہ نہیں ہاریں۔ سیاسی جماعتوں سے لفافے لینے کا الزام تو اب بہت پرانا اور ’نارمل‘ ہو گیا۔ اب تو خواتین صحافیوں کو عصمت دری اور قتل کی دھمکیوں جیسے واقعات بھی محسوس ہوتا ہے کہ ’نارمل روٹین‘ کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔
یہ سب نارمل نہ بنیں اسی لیے ہم سب نے مل کر اس کے خلاف اور اس کے آگے بند باندھنے کا فیصلہ کیا۔ ہم خواتین صحافیوں کی کہانیاں مختلف ہو سکتی ہیں مگر ہم سب کے تجربات، ہماری اذیت، ہمارے دکھ، ہمارا سہنا سب مشترک ہے سب یکساں ہے۔
کسی کو ایک سیاسی جماعت یا اس سے وابستہ پیروکاروں سے شکایت ہے کسی کو کسی دوسری سے۔ کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت، گروہ، ریاستی یا غیرریاستی عناصر اس سے مبرا نہیں۔ اس تمام مسئلے کا اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ خواتین صحافیوں کے خلاف حملوں کو جہاں پدرسری معاشے کی
بھرپور مکمل شہہ اور حمایت حاصل ہے وہیں اس معاشرے کے طاقتور عناصر خواتین کے خلاف ان حملوں کی روک تھام کے آڑے بھی آجاتے ہیں۔
مسئلہ قوانین کی عدم موجودگی کا نہیں ان قوانین کی عدم تحریک کا ہے۔ قوانین تو سبھی موجود ہیں ادارے بھی موجود ہیں لیکن انصاف نہیں ملتا۔ خواتین کے لیے انصاف کا حصول اس قدر دشوار اور سنگین بنا دیا جاتا ہے کہ ایک بڑی اکثریت گھروں میں بیٹھ رہنے یا برداشت کیے چلے جانے کو ترجیح دیتی ہے۔
اور جو مجھ جیسی چند سرپھری خواتین پھر بھی جرات کر ہی لیں کورٹ کچہریوں کے چکر لگانے کی، تو ان کی اس جدوجہد کو بھی مختلف حملوں حیلوں بہانوں سے داغ دار کیا جاتا ہے۔ قانون طاقتور کے سامنے موم کی ناک بن جاتا ہے حتیٰ کہ یا تو ظالم اپنے مقاصد حاصل کر لے یا مظلوم ہی دل برداشتہ ہو جائے۔
اس انتہائی دشوار صورت حال میں خواتین صحافیوں نے جو مل کر آواز اٹھانے کی کاوش کی، تاکہ اس عمل کے ذریعے ایک دوسرے کی طاقت بن کر ارباب اختیار کو جھنجھوڑا جائے، تو اس کاوش کو ناکام بنانے کے لیے اس بار ایک نیا حربہ اختیار کیا گیا اور خواتین صحافیوں پر فیک نیوز پھیلانے کا الزام لگا دیا گیا۔
دیگر الزامات کی طرح یہ صرف یہ الزام بھی ایک طرف جہاں بوگس اور غلط تھا وہیں اس نے خواتین صحافیوں پر حملوں کا ایک نیا بند توڑ دیا۔
فیک نیوز کی آڑ میں ایک بار پھر خواتین کو جنسی ہراساں کیا جانے لگا، ایک بار پھر ریپ اور قتل جیسی دھمکیاں دی جانے لگیں۔
اس تمام عمل سے خواتین صحافیوں کو کم از کم ایک فائدہ تو ضرور ہوا کہ جس مسئلے کی نشاندہی کرنا چاہ رہیں تھیں، وہ مزید شدومد کے ساتھ روز روشن کی مانند عیاں ہو گیا۔ خواتین کا آج بھی مطالبہ ہے کہ ان کے خلاف ہونے والے حملوں کی سنگین نوعیت کا احساس اور ادراک کیا جائے، اسے تسلیم کیا جائے، اسے فیک نیوز جیسی مبہم غیرواضح اور مبنی برمقاصد اصطلاح کے ساتھ نہ جوڑا جائے کیونکہ جنسی ہراسانی، حملے، عصمت دری یا قتل کی دھمکیاں از خود انتہائی سنگین جرائم ہیں۔
خواتین صحافیوں کے خلاف حملوں کی منظم اور مربوط حمایت کی ہر ایک کی جانب سے بلامشروط حوصلہ شکنی کی جائے اور رائج و موجودہ قوانین کو فعال اور آزادانہ بناتے ہوئے خواتین صحافیوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ امید ہے کہ حکومت وقت خواتین صحافیوں کی اس اپیل پر کان دھرے گی اور محفوظ ماحول کی فراہمی یقینی بنائے گی۔
(بشکریہ انڈیپنڈنٹ نیوز)