”ایک اور بھوت“
شمشاد مانگٹ
یونان کا عظیم فلسفہ دان سقراط یونان کے معروف شہر ایتھنز میں پیدا ہوا،یہ صدیوں برس کا پرانا قصہ ہے۔سقراط نہ صرف مجسمہ ساز بلکہ جذبہء حب الوطنی سے سرشار تھا اوراسی وجہ سے اس نے کئی یونانی جنگوں میں بھرپور حصہ لیا۔دوست احباب میں اسکی شناخت ایک بزرگ اور روحانی شخصیت کی تھی۔
سقراط کی طبیعت میں اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ اوصاف بدرجہ اتم موجود تھے۔سقراط نے اپنی صلاحیتوں کی بناء پر نوجوانوں میں فکری تحریک کو ابھارا اور دیوتاؤں کے حقیقی وجود سے انکار کرکے اس دور کے تمام زمینی”خداؤں“ کو للکاردیا۔اس جرمِ عظیم کی پاداش میں یونانیوں کی عدالت کے 500 رکنی لارجر بنچ نے سقراط کو سزائے موت سنائی۔
سقراط نے زہر کا پیالہ جب پیناچاہاتواس کے حامیوں نے اس کوبھگانے کیلئے منصوبہ بندی کی لیکن ان کی اس سوچ پرسقراط نے عمل کرنے سے انکارکردیااورکہا کہ میں محب وطن کے طورپرہی مرناپسندکروں گاچہ جائیکہ میں مفروری کی حالت میں دنیاچھوڑجاوٴں۔قدیم یونانیوں کاخیال تھاکہ سقراط سے جان چھوٹ جانے کے بعدان کے نوجوان ”راہ راست“پرآجائیں گے اوران کے دیوتاوٴں کودوبارہ احترام کی نگاہوں سے دیکھاجانے لگے گا۔لیکن ایسانہیں ہوابلکہ سقراط کابھوت سقراط سے بھی زیادہ خطرناک ہوکرابھرا۔
سچ تویہ ہے کہ سقراط کابھوت آج بھی یونانیوں کے سرپربیٹھاہواہےاوریونانی اقدارسے ہٹ کردنیامیں جہاں کہیں بھی کسی مظلوم پرعدالت کے ذریعے ظلم ہوتا ہے توعین اسی وقت سقراط کابھوت طعنہ بن کرسامنے کھڑاہوجاتاہے ۔پوراعالم آج بھی سقراط کے فلسفے اوراصولوں کاقدردان نظرآتاہے لیکن اسے سزادینے والے 500رکنی لارجربنچ میں شامل ”انصاف“ کرنے والے کسی جج کی قبرکابھی کسی کوعلم نہیں ہے ۔
صدیوں بعدپاکستان میں بھی ”سقراطی“کھیل کھیلاگیااوراس بار وقت کاسقراط ذوالفقارعلی بھٹوتھا۔ذوالفقارعلی بھٹواورسقراط کاجرم ملتاجلتاہی ہے ۔کیونکہ دونوں نے ہی عوام میں شعوربیدارکرنے کی کوشش کی اوردونوں ہی اپنے اپنے دورکے ”دیوتاوٴں“کابھرم توڑنے میں کامیاب رہے اوردونوں کوہی عدالتی سہارالیکرراستے سے ہٹایاگیا۔
ذوالفقارعلی بھٹوکی پھانسی پربی بی سی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہاتھاکہ زندہ بھٹوسے زیادہ مرے ہوئے بھٹوکابھوت فوجی حکمرانوں کیلئے خطرناک ہوگا۔چنانچہ پھروقت نے دیکھاکہ جنرل ضیاء الحق کے بعدبھی جولوگ ذوالفقارعلی بھٹوکوراستے سے ہٹانے میں پیش پیش تھے وہ سکھ کاسانس نہیں لے پائے ۔
سقراط نے یونانیوں کے لئے اورباقی دنیاکیلئے فلسطہ چھوڑااورلوگ اس سے اب بھی استفادہ کرتے ہیں ۔ذوالفقارعلی بھٹونے جمہوری شعورکیلئے اپنی جان تودیدی لیکن ان کے موجودہ ورثاء نے جمہوریت بہترین انتقام کانعرہ لگاکربھٹوسے محبت کرنے والوں سے بہترین انتقام لیاہے اورسندھ میں یہ انتقام آج بھی جاری ہے ۔
اب ایک اورسیاسی اورصحافتی بھوت نے جنم لیاہے اوریہ بھوت سعودی عرب کے معروف صحافی جمال خشوگی کے بہیمانہ قتل سے پیداہواہے ۔جمال خشوگی کی قربانی احباب صحافت کے ماتھے کاجھومرہے لیکن سعودی عرب کے ولی عہدمحمدبن سلیمان کیلئے ایک خوفناک بھوت ہے ۔جمال خشوگی نے سعودی عرب کے حکمرانوں پردلیری کے ساتھ تنقیدکی اورپھران کی آنکھوں میں اتراہواخون دیکھ کرملک چھوڑکرچلے گئے ۔
یکم اکتوبر2018ء سے پہلے جمال خشوگی کوواشنگٹن پوسٹ کاعملہ یاپھرولی عہدمحمدبن سلیمان جانتے تھے لیکن ترکی کی ایمبیسی میں جس بے دردی سے جمال خشوگی کوقتل کیاگیاہے اب انہیں پوری دنیاجانتی ہے اورشعبہ صحافت سے وابستہ لوگ جمال خشوگی کے قتل پرافسردہ بھی ہیں اوراس قربانی پرفخربھی محسوس کرتے ہیں کیونکہ اہل صحافت کیلئے اصل راستہ یہی ہے جمال خشوگی اگرطبعی عمرجیتے تومزید30,20سال جی لیتے لیکن انہیں یہ شہرت اورمرتبہ نصیب نہ ہوتااوروہ امرنہ ہوتے ۔
ولی عہدمحمدبن سلیمان کیلئے اس قتل سے بے پناہ مسائل پیداہوگئے ہیں کیونکہ نہ توجمال خشوگی کواندازہ تھاکہ سعودی عرب جیسی ریاست اس سے ٹکراکرتھرتھرکانپناشروع ہوجائے گی اورنہ ہی سعودی عرب کویہ اندازہ ہوپایاکہ جمال خشوگی اس کیلئے برف کاوہ پہاڑثابت ہوسکتاہے جس سے ٹائی ٹینک ٹکراکرڈوب گیاتھا۔
ترک صدرطیب اردوان جب ترکی کے ایوان میں کھڑے ہوکرمطالبہ کرتے ہیں کہ قتل ترکی کی سرزمین پرہوااس لئے تمام قاتل ہمارے حوالے کئے جائیں تاکہ ہم ان سے اگلواسکیں کہ قتل کاحکم کس نے دیاتھا؟۔ترکی کے اس مطالبے پرسعودی عرب کے حکمرانوں کے ٹھنڈے پسینے چھوٹتے ہیں ۔
علاوہ ازیں جمال خشوگی کے قتل پرامریکی اوریورپی ایوانوں میں بھی شورمچاہواہے اورخبریں آرہی ہیں کہ سعودی عرب کے بادشاہ سلیمان بن عبدالعزیزاپناولی عہدتبدیل کرنے پرغورکررہے ہیں اورباالفرض اگرایسانہ بھی ہومگرجمال خشوگی کابھوت ولی عہدمحمدبن سلیمان کاتعاقب کرتارہے گا۔
اگرولی عہدمحمدبن سلیمان چاروناچارسعودی عرب کے بادشاہ بھی بن گئے توکسی بھی غیرملکی دورے کے دوران جمال خشوگی کابھوت اچانک نمودارہوکرانہیں خوفزدہ کرسکتاہے ۔سوال نہ سننے کے عادی سعودی حکمرانوں کوجمال خشوگی کے قتل کاجواب کسی بھی وقت دیناپڑسکتاہے ۔
جمال خشوگی کے قتل پرامریکی ردعمل بہت دلچسپ ہے امریکہ نے کہاہے کہ جمال خشوگی کوماورائے عدالت قتل کیاگیا۔اس سے مرادہے کہ اگرولی عہدمحمدبن سلیمان امریکیوں سے مشورہ کرتے تووہ اس قتل کااہتمام ”عدالت“کے ذریعے کروادیتے ۔ذوالفقارعلی بھٹوکاعدالتی قتل امریکی ”کارکردگی “کامنہ بولتاثبوت ہے ۔البتہ سقراط کاقتل امریکہ کی دریافت سے پہلے ہواتھا۔
عین ممکن ہے کہ امریکہ نے ترقی پذیرملکوں میں قتل کی کامیاب قانونی وارداتوں کاآئیڈیاسقراط کے قتل سے ہی لیاہو۔بہرحال جمال خشوگی کابھوت سعودی عرب کے حکمرانوں کوبہت تنگ کریگااوربیرونی دنیااس بھوت سے ڈراڈراکرسعودی عرب سے بہت مال بنائے گی۔
اس بھوت کا سب سے زیادہ فائدہ امریکہ اٹھائے گا اور اب صورتحال ایسی ہے کہ ولی عہد سعودی عرب کی ساری دولت بھی خرچ ڈالیں لیکن لوگوں کے ذہن سے جمال خشوگی قتل کا الزام نہیں ہٹا سکیں گے۔حتی کہ اگر جمال خشوگی اللہ سے خصوصی اجازت لیکر بھی گواہی دیں کہ میرے قتل میں ولی عہد محمد بن سلمان ملوث نہیں تو پھر بھی دنیا کا ذہن صاف نہیں ہو پائے گا۔