بے رحم یا اصولی سیاست
محمد مبشر انوار
پرانی کہاوت ہے کہ خطے کا اثر انسانی نفسیات یا عمل پر کسی قدر ہوتا ہے،اس کا مظاہرہ برصغیر میں رہنے والے اور یہاں کی سیاست بھگتنے والوں کے سامنے بہت واضح اور عیاں ہے کہ اس خطے میں چانکیہ سیاست کا گہرا اثر اورچھاپ نظر آتی ہے۔ جدید دور میں سیاست کے اطوار مکمل طور پر بدل چکے ہیں اور مہذب ریاستوں میں سیاست کا مطلب فقط ریاستی مفادات و شہریوں کے حقوق کا تحفظ اولین ترجیحات میں شمار ہوتا ہے، اس کے برعکس تیسری دنیا کے ممالک ابھی تک شخصی سیاست کے اسیرنظر آتے ہیں۔
نظریاتی سیاست کا رجحان ابھی تک تیسری دنیا کے ممالک میں نہ تو اپنی شناخت بنا سکا ہے اور نہ ہی بونے سیاست دان اس کی اہمیت کا ادراک کر سکے ہیں اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ جہاں قیاد ت کرنے کے دعوے دار ہی اس کی اہمیت سے نابلد ہوں وہاں ان کو منتخب کرنے والے اس کا اتہ پتہ جان سکیں؟لہذا ایک بھیڑ چال میں سب چلتے جا رہے ہیں اور صدیوں پرانی چانکیائی سیاست پر عمل کرتے ہوئے فقط اپنے رعب داب،اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال کرتے ہوئے کیا عوام اور کیا خواص،سب کو استعمال کر کے ردی کی ٹوکری کی زینت بنانے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔
یہاں سیاست دان کس طرح ایک دوسرے کو استعمال کرتے ہیں،مجھے سابق وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کا وہ اعتراف یاد آ رہا ہے جب 1985-1986میں پیر صاحب پگاڑا نے انہیں اس وقت کے نو آموز وزیر اعلی میاں نواز شریف کے خلاف استعمال کیا تھا۔ یوسف رضا گیلانی اپنی کتاب میں ”چاہ یوسف سے سدا“ میں لکھتے ہیں کہ جب میاں نواز شریف نے بطو وزیر اعلی اپنے پر پرزے نکالنے شروع کئے تو پیر صاحب پگاڑا کے کہنے پر انہوں نے پنجاب کے ایم پی ایز کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں شروع کی.
جب کامیابی کے قریب پہنچے تو میاں نواز شریف نے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے پر سمیٹ لئے۔ میاں نواز شریف کے پر سمیٹتے ہی پیر صاحب پگاڑا کا مشن بھی مکمل ہو گیا اور یوسف رضا گیلانی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔دوسری طرف ہماری سیاست کی یہ بھی ایک شرمناک حقیقت ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے ہواؤں کا رخ دیکھتے ہوئے،سورج مکھی کے پھول کی مانند ہمیشہ اپنا رخ اقتدار کی طرف ہی رکھتے ہیں تا کہ ہر طرح کے ریاستی وسائل کو ہر ممکن طریقے سے کشید کر سکیں،جو آج تک کرتے آ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے ووٹ(جس پر اب بے شمار سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا واقعی یہ پی ٹی آئی ہی کے ووٹ تھے)اس نظام کو گرانے کے لئے ہی حاصل کئے تھے اور عوام کو یہ امید بھی تھی کہ عمران خان پاکستان اور عوام کے مفادات کا تحفظ کریں گے مگر شو مئی قسمت کہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے عمران نے اپنے بنیادی اصول پر ہی سمجھوتہ کر لیا اور انہی خاندانوں اور چہروں کو پارٹی میں نہ صرف قبول کیا بلکہ انہیں ہی ٹکٹ بھی دئیے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی حکومت بنانے کے لئے سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کر پائی.
اس کو حکومت بنانے کے لئے اتحادیوں کی ضرورت پڑی،اب یہ اتحادی کس طرح حکومت کا حصہ بنے،یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے،ساری دنیا کو علم ہے کہ اس مقصد کے لئے تب عمران کے دست راست جہانگیر خان ترین نے تن،من اور دھن سے(بقول جہانگیر خان ترین)حکومت بنانے کے لئے عمران کا ساتھ دیا۔آزا دامیدوار ہوں یا چھوٹی سیاسی جماعتیں،جہانگیر ترین کا کردار ہر جگہ نمایاں نظر آیا مگر کیا جہانگیر خان ترین کا یہ کردار ایک سیاستدان کا کردار تھا یا ایک کاروباری شخص کی سرمایہ کاری تھی؟
اس لمحے ہم یہ تصور کر لیتے ہیں کہ یہ ایک کاروباری شخص کی سرمایہ کاری تھی تب عمران کو اس کا احساس کیوں نہ ہوا؟عمران کی تو ساری سیاست کا محور و مرکز ہی ایسی سرمایہ کاری کے خلاف جدوجہد تھی پھر اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کیوں کیا؟کیا یہ ہوس اقتدار تھی یا واقعتا پاکستان اور پاکستانیوں کی بہبود مقصود تھی؟آج جب چینی سکینڈل افشاء ہوا ہے تو توپوں کا رخ جہانگیر خان ترین کی جانب موڑ دیا گیا ہے، اصولی سیاست اور نظریات یاد آ گئے ہیں،یہ کون سی سیاست ہے،اس سے کس عوام کا بھلا مقصود ہے؟
تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان میں عوام کی جیبوں سے لوٹا گیا پیسہ کبھی واپس نہیں ملا،الٹا سرمایہ دار اور سیاستدانوں کی ملی بھگت سے پاکستان اور عوام کو ہمیشہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ کیا تاریخ بدلنے جا رہی ہے یا یہ بھی سیاست کا کوئی نیا پینترا ہے جو حکمران جماعت عوام پر پھینکنے جا رہی ہے؟اس کے پس پردہ کیا عزائم ہیں؟ اس سکینڈل کو اس قدر ہوا کیوں دی جا رہی ہے؟کیا اس میں ملوث کاروباری شخصیات کو بلا امتیاز سزائیں دی جائیں گی یا دی جا سکتی ہیں؟
ماضی قریب کی روایت تو اس امر کی شدت سے نفی کرتی ہے کہ عمران کی حکومت اپنے جن دعوؤں پر اقتدار میں آئی تھی،اس میں سب سے اہم احتساب کا نعرہ تھا،جو آج ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ جن کے خلاف عمران دن رات انتہائی شدت کے خلاف زہر افشانی کیا کرتے تھے وہ آج یا لندن براجمان ہیں یا بلاول ہاؤس کراچی کی آزادفضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں جہانگیر خان ترین واشگاف الفاظ میں اپنے خلاف ہونے والی کارروائی میں عمران کے دائیں بائیں بیٹھے اپنے مخالفین کو نامزد کررہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری ان کے نشانے پر ہیں۔تاہم تاحال جہانگیر خان ترین کی جانب سے عمران پر براہ راست کسی قسم کا کوئی الزام میڈیا پر نہیں لگایا گیاماسوائے ان کی خاندان میں کی جانے والی نجی گفتگو کہ جس میں وہ اپنے خاندان سے،سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد،اس کے محرکات اور آئندہ کا لائحہ عمل ڈسکس کررہے ہیں
(ذرائع ابلاغ کے مطابق)۔ جس کی ریکارڈنگ کسی طرح وزیراعظم عمران خان تک جا پہنچی،جو دوریوں کا باعث بننے کی بنیاد بنی۔ یہاں اصولی طور پر جہانگیر خان ترین کو یہ حق تو ہے کہ وہ نہ صرف اپنی نااہلی کے پیچھے ہونے والے محرکات بلکہ اپنے سیاسی مستقبل کا لائحہ عمل بنائیں۔اس میں یقینی امر ہے کہ جو بھی جہانگیر خان ترین کی نااہلی کے بعد فائدہ اٹھا سکتا ہے یا اٹھانے کی پوزیشن میں ہو،اس کے متعلق گفتگو تو ہو گی،موجودہ صورتحال میں اس کا سب سے زیادہ فائدہ،براہ راست یا بالواسطہ، تو بہر طور وزیر اعظم عمران خان کو ہی پہنچتا ہے۔
لہذا وزیراعظم عمران خان کے ذکر کے بغیر تو یہ گفتگو سرے سے ہی بیکار و بے معنی ہوتی لیکن ایسی گفتگو کو وزیراعظم تک پہنچانے والے کی کیا حیثیت ہو گی؟کیا اس نے بغیر کسی مفاد کے یہ غیر اخلاقی حرکت کی ہے یا کسی سرکاری ڈیوٹی کی ادائیگی میں یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے؟جہانگیر ترین خود یہ کہتے ہیں کہ وہ وزیراعظم کے ایجنڈے پر عملدرآمد کے لئے نہ صرف مخلص تھے بلکہ اس کے لئے اپنی تمام تر توانائیوں اور مہارت کے ساتھ وزیر اعظم کے ساتھ تھے لیکن پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ان کو اس حیثیت میں قابل قبول نہ تھے،لہذا انہوں نے وزیراعظم کے کان بھرے اور یوں دو دوست ایک دوسرے سے جدا ہورہے ہیں۔
بہر کیف جو ہونا تھا وہ ہو چکا،اب تو یہ دیکھنا ہے کہ واقعی عمران خان ایسے مافیا(جن کا ذکر وہ عموما کرتے ہیں)کے خلاف واقعتا کوئی کارروائی کرتے ہیں یا نہیں؟اگر تو بلاامتیاز ایسے تمام ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو یقین کرنا پڑے گا کہ عمران اپنے نظرئیے پر چلتے ہوئے اصولی سیاست کی طرف رواں ہیں بصورت دیگر ایک اورسیاستدان کے چہرے پر بے رحم/چانکیائی سیاست کاٹیکہ لگ جائے گا.