پرانی جیل۔ نیاعزم
نوید چودھری
چودھری نثار نے نواز شریف اور مریم نواز کی سزا پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ اسی دن سے بچنے کیلئے جرنیلوں کے ساتھ نہ الجھنے کا مشورہ دیتے تھے، چکری کا چودھری سیدھے سیدھے یہ کہہ رہا ہے کہ عدالتوں سے ہونے والی سزا کا براہ راست تعلق کسی جرم سے نہیں بلکہ اداروں کے سامنے جھک کر نہ چلنے اور سرکشی دکھانے کی پالیسی سے ہے۔
چودھری نثار پہلے بھی یہ بات کئی بار کہہ چکے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی بات کرتے ہوئے یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ اگران کا مشورہ مان کر پاناما کا معاملہ عدالت میں نہ لے جایا جاتا تو شریف فیملی اس مشکل سے بچ سکتی تھی۔ بعض دوسرے حلقے بھی ایسی ہی باتیں کرتے ہیں، حالانکہ ایسا سوچنا اور کہنا بھی پوری طرح سے مضحکہ خیز ہے، نواز شریف کو جن اداروں اور عناصر کا سامنا تھا، انہوں نے پاناما نہیں تو اقامہ، نیب نہیں تو ایف آئی اے، حتیٰ کہ پنجاب پولیس تک کو استعمال کر کے انہیں نشانہ بنا لینا تھا۔
جب سارا مسئلہ ہی ملک پر قبضے کی جنگ میں اپنا حصہ برقرار رکھنے کا ہو تو پھر صلاح و مشورے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اب جبکہ عام انتخابات ہونے میں چند دن باقی رہ گئے ہیں اور محاذ آرائی اپنے عروج پر ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پری پول رگنگ، ان دنوں پیش آنے والے واقعات اور پولنگ ڈے اور اس کے بعد کیا ہو گا؟ اس حوالے سے شکوک وشبہات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں بلکہ بڑھتے ہی جارہے ہیں۔
اب جب کہ اسٹیبلشمنٹ کے تمام تر اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے نواز شریف، مریم نواز گرفتاری دینے کیلئے لاہور آرہے ہیں تو یوں محسوس ہورہا ہے کہ یہ پنڈورا باکس اب آسانی سے بند نہیں ہوگا۔ منگل کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ میں کئی ’’ڈیوٹی سوالات‘‘ بھی الٹے پڑ گئے۔ انتخابی عمل میں دھاندلی کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور کو صفائی دینے کے دوران غیر متوقع صور ت حال کا سامنا کرنا پڑا۔
آئی ایس آئی اور میجرجنرل فیض حمید کا کردار زیر بحث آگیاجن پر ایک روز قبل ہی کیپٹن(ر) صفدر نے راولپنڈی میں گرفتاری دینے سے قبل بڑی ریلی کے دوران خطاب کرتے ہوئے براہ راست تنقید کی تھی۔
میجر جنرل آصف غفور نے اپنے کولیگ کا بھرپور دفاع کیا، اس کے فوراً بعد لندن سے نواز شریف نے بیان داغ کر پھر سے انہی تمام الزامات کو زیادہ شدت سے دہرا دیا۔
ن لیگ کے کئی سخت مخالف نگران حکومت میں بھی موجود ہیں مثلاً ہر مارشل لا ء سے فائدہ اٹھانے والے ایس ایم ظفر کے بیٹے علی ظفر، نگران وزیراعلیٰ پنجاب حسن عسکری جو شاید دانشور بنے ہی اس لیے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی اندھا دھند حمایت کرتے ہوئے جمہوری قوتوں خصوصاً ن لیگ کے لتے لیتے رہیں۔ اس سب کے باوجود یہی سمجھا جارہا ہے کہ اصل مقابلہ ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہے، جو یقیناًنواز شریف کی گرفتاری اور متنازعہ الیکشن کے بعد قائم ہونے والی حکومتوں سے بھی حل نہ ہو پائے گا۔
ان سطور کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ماضی میں شریف خاندان کے ساتھ جیلوں اور اٹک قلعے میں کیا ہوا، 1999 ء میں مشرف نے فوجی بغاوت کے بعد وزیراعظم نواز شریف سے پرائم منسٹر ہاؤس میں استعفیٰ لینے کیلئے جرنیلوں کے ہمراہ مسلح کمانڈوز کو بھجوایا، گن پوائنٹ پر سب کو گھیرے میں لے لیا گیا تو خطرہ تھا کہ گولی کسی بھی وقت چل جائے، نواز شریف نے جرنیلوں اور کمانڈوز کے نرغے میں ہونے کے باوجود صاف انکار کر دیا بلکہ یہاں تک کہہ ڈالا کہ استعفیٰ نہیں دوں گا چاہے جان سے مار دو۔
اس تمام کھینچا تانی کے بعد اٹک قلعہ اور جیلیں،مری کے گورنر ہاؤس کو سب جیل قرار دے کر جرنیلوں نے اپنے طور پر شریف برادران کی گردنوں سے سریا نکالنے کی کوشش کی، نواز شریف جب گورنر ہاؤس مری کی سب جیل میں تھے تو شدید سردی میں بھی انہیں گرم کپڑے پہننے کی اجازت نہ تھی۔ نواز شریف کے ساتھ ہی شہباز شریف، حسین نواز اور عملے کے کچھ افراد اور بزرگ صحافی نذیر ناجی بھی پکڑے گئے تھے جنہیں الگ الگ مقامات پر رکھا گیا تھا۔
راولپنڈی میں بعض افسران بڑے مزے لے لے کر بتایا کرتے تھے کہ نواز شریف کے اعصاب توڑنے کیلئے اہلکار ان کے کمرے ،کھڑکیوں اور دروازوں کے پاس آکر باتیں کرتے تھے، حسین نواز کا بہت افسوس ہوا، بہت ہی اچھا نوجوان تھا، ایسی باتیں سن کر ہر باپ کی طرح نواز شریف لرزکر رہ جاتے، اندر سے چیخ چیخ کر پوچھتے میرا بیٹا کہاں ہے؟، اہلکار قہقہے لگاتے ہوئے اِدھر سے اُدھر ہو جاتے تھے۔
کچھ دنوں کے بعد نواز شریف کو صبح کے وقت گورنر ہاؤس میں تلاوت کی آواز بلند ہوتی سنائی دی تو انہیں تسلی ہوئی کہ ان کا بیٹا زندہ سلامت ہے۔ اٹک قلعے اور جیلوں میں نواز شریف کو باقاعدہ جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ایک مرتبہ کراچی میں ایک فوجی افسر نے کئی لوگوں کے سامنے تھپڑ مارے، اٹک قلعے میں نواز شریف کو زچ کرنے کیلئے بیرک میں سانپ اور بچھو تک چھوڑے جاتے تھے، شریف برادران نجی محفلوں میں ایسے واقعات کا ذکر کرتے رہے ہیں۔
ایک بات جو کبھی بھلائی نہ جا سکے گی، دونوں بھائیوں کو ایک پیشی کیلئے پرانے طیارے میں ہتھکڑیاں باندھ کر کراچی لے جایا گیا، یہ سفر کئی گھنٹوں پر محیط تھا، اہلکاروں نے ہتھکڑی میں بندھے شریف برادران کو ایک سیٹ کے ساتھ باندھ کر کھڑا ہونے پر مجبور رکھا۔ ان باتوں کا ذکر کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ سیاستدانوں خصوصاً جو جرنیلوں کے زیر عتاب ہوں ان کے لیے جیل کاٹنا معمول کا معاملہ نہیں بلکہ کئی گنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی جنرل یا اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا پولیس افسر قابو آجائے تو اسے محل میں رکھا جاتا ہے، جیسے مشرف اور راؤ انوار کو رکھا گیایا پھر درجہ اول کے ریسٹ ہاؤس خالی کرا کے دنیا کی تمام سہولتیں اور آسائشیں فراہم کی جاتی ہیں۔
جنرل مشرف کی فوجی بغاوت کے حوالے سے ایک د لچسپ واقعہ جو حسین نواز شریف نے بعد میں سنایا۔
جرنیلوں اور کمانڈوز نے جب وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کر لیا تو دونوں جانب سے تلخ جملوں کے تبادلے کے باوجود ایک احتیاط کا ماحول تھا۔ ایسے میں بزرگ صحافی نذیر ناجی بڑھ چڑھ کر چھاپہ مار فوجی پارٹی کو کھری کھری سنا رہے تھے، بزرگ کی جرأت اور غصہ دیکھ کر حسین نواز نے درخواست کی کہ کچھ دیر کیلئے خود پر قابو پائیں، بات مکمل ہو لینے دیں۔ نذیر ناجی نے کہا کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا، اللہ کو جان دینی ہے، فوج کے اس غیر آئینی کام کو کسی صورت برداشت نہیں کروں گا۔
سب گرفتار ہو کر ادھر ادھر بھجوادئیے، حسین نواز کے مطابق ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور منزل نامعلوم تھی، دوران سفر ایک اہلکار نے ان سے ہمدردی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ آپ کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس میں بابا جی فوج کے چھاپے کے فوری بعد ایک سائیڈ پر آ کر افسروں کی منت سماجت کررہے تھے کہ میرا کوئی قصور نہیں مجھے جانے دیا جائے۔ جب انہیں بتایا گیا کہ ابھی انہیں رہا کرنا ممکن نہیں تو انہوں نے کہا تو پھر میرے ذمے ایک کام لگا دیں میں بظاہر آپ کی مخالفت کروں گا اور جب تک آپ ہمیں یہاں قید رکھیں گے شریف خاندان کے باہمی مشوروں کے بارے میں ایک ایک چیز سے آپ کو آگاہ رکھوں گا۔
نواز شریف کو 21سال قید، تاحیات نااہلی کی سزا ہوئی ابھی کئی اور مقدمات چل رہے تھے کہ امریکی سرکار دھم سے کود پڑی۔ کلنٹن نے اسلام آباد آ کر پاکستانی قوم سے لائیو خطاب کیا اور حکمران مشرف پر واضح کر دیا کہ نواز شریف کو کوئی جانی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ چند روز بعدامریکی آشیرباد سے سعودی عرب، قطر اور امارات والے مل کر آئے اور شریف خاندان کو چھڑا کر لے گئے۔ یہ سچ ہے کہ اس وقت شہباز شریف نے جیل چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے ہمیں سیاسی نقصان پہنچے گا مگر میاں شریف نے جیل آ کر حکم دے کر چلنے کا کہا۔
نواز شریف اور ان کا خاندان اب ایک مرتبہ پھر زیرعتاب ہے، شہباز شریف پر بھی مقدمات بن سکتے ہیں لیکن اس مرتبہ وہ کسی صورت ملک سے جانے کو تیار نہیں ہونگے۔ پاناما کیس سے پہلے دھرنوں کے دوران اور پھر عدالتی فیصلے کے روز تک انہیں آفرز کی جاتی رہیں جو مسترد کر دی گئیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے، اس کشیدہ ماحول کے اثرات اب ہر شعبہ میں نمودار ہوئے جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ نہایت احتیاط سے ترتیب دی گئی ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ بھی متاثر ہوئی۔
ایک صحافی نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ نواز شریف کا پتہ صاف ہوتا جارہا ہے، زرداری کا گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے، لگے ہاتھوں عمران کا بھی کچھ کر لیں، بعد میں اس ناسور نے چھوڑنا نہیں ہے کسی کو اس تجویز پر محفل کے تمام شرکاء بشمول میزبان چونکے بغیر نہ رہ سکے۔ صحافی کی بات سے یہی مفہوم اخذ کیا گیا کہ انہوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ اگر حکومت اسی طور طریقے سے ججوں کے ذریعے ہی چلانی ہے تو پھر اربوں روپے خرچ کر کے جعلی سول اسمبلیاں بنانے اور ڈمی حکمران لانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔