قومی لطیفے
شمشاد مانگٹ
پاکستان کا پورا نظام ایک لطیفہ ہے۔عوامی مفاد کیلئے بنایا گیا ہر قانون بھونڈا مذاق تو ہے ہی لیکن خوبصورت لطیفہ بھی ہے۔آجکل چونکہ الیکشن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اس لئے ہر امیدوار کی انتخابی مہم میں ہونے والے وعدے اور تسلیاں ہمارے معاشرے کے بہترین لطیفے قرار دئیے جاسکتے ہیں۔ہمارے معاشرے کی عکاسی کرنے والے چند مشہور لطیفے قارئین کو پیش کئے جارہے ہیں۔
ایک گاوٴں میں سیلاب آگیا، ایک حکومتی افسر گاوٴں پہنچا اور لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ پانی کا بہاوٴ بہت بڑھ گیا ہے، پانی خطرے کے نشان سے 2 فٹ اونچا ہوگیا ہے۔ لوگوں نے خوفزدہ ہوکر کہا کہ اب کیا ہوگا؟ افسر نے کہا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے انتظام کرلیا ہے۔ خطرے کے نشان کو دو فٹ سے بڑھا کر چار فٹ کردیا ہے۔
یہ لطیفہ ان معاشی پالیسیاں بنانے والے ماہرین کے نام ہے جو مہنگائی کے اسباب ختم کرنے کے بجائے تنخواہ میں اضافے کی بات کرتے ہیں جب کہ دنیا کے معاشی ماہرین کے مطابق تنخواہ میں اضافہ مہنگائی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
——————————-
پولینڈ میں ایک بچے نے اپنی کلاس ٹیچر کو بتایا کہ ہماری بلی نے چار بچے دیے ہیں، وہ سب کے سب کمیونسٹ ہیں۔ ٹیچر نے خوب شاباش دی۔ ہفتہ بھر بعد جب اسکول انسپکٹر معائنے کے لیے آئے تو ٹیچر نے بچے سے کہا کہ بلی والی بات پھر سے کہیے، بچے نے کہا ہماری بلی نے چار بچے دیے ہیں وہ سب کے سب جمہوریت پسند ہیں۔ ٹیچر نے بوکھلا کر کہا ہفتہ بھر پہلے تو تم نے اس طرح بات نہیں کی تھی، بچہ بولا جی ہاں مگر اب بلی کے بچوں کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے ان عہدیداروں کے نام جو پارٹی بدل کر دوسری پارٹی میں چلے جاتے ہیں سابقہ پارٹی میں اس طرح کیڑے نکالتے ہیں جیسے پارٹی بدلتے ہی ان کی آنکھیں کھلی ہیں۔
————————-
ایک شہری خاتون گاوٴں میں عورتوں کو حساب سکھا رہی تھیں۔ اس نے ایک عورت سے پوچھا کہ اگر تمہارے پاس پچاس روپے ہوں اس میں سے تم بیس روپے اپنے شوہر کو دے دو تو بتاوٴ تمہارے پاس کتنے روپے بچیں گے؟ عورت نے جواب دیا کچھ بھی نہیں۔ خاتون نے دیہاتی عورت کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔ احمق عورت! تم حساب بالکل نہیں جانتی ہو۔ دیہاتی عورت نے جواب دیا۔ آپ بھی میرے شوہر ”شیرو“ کو نہیں جانتی ہو۔ وہ سارے روپے مجھ سے چھین لے گا۔
یہ لطیفہ ان ماہرین کے نام جو پالیسیاں بناتے وقت زمینی حقائق سے لاعلم ہوتے ہیں۔اور ”شیرو“ حکمرانوں کی جائیدادوں سے جان بوجھ کر آنکھیں بند کئے رکھتے ہیں۔
————————–
ایک مولوی صاحب کسی گاوٴں پہنچے۔ انھیں تبلیغ کا شوق تھا۔ جمعہ کا خطبہ پورے ایک ہفتے میں تیار کیا لیکن قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ جمعہ کے دن صرف ایک نمازی مسجد میں آیا۔ مولوی صاحب کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ انھوں نے اس شخص سے کہا کہ تم واحد آدمی ہو جو مسجد آئے ہو۔ بتاوٴ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ وہ شخص بولا۔ مولوی صاحب! میں ایک دیہاتی آدمی ہوں۔ مجھے اتنا پتا ہے کہ میں اگر بھینسوں کے لیے چارہ لے کر پہنچوں گا اور وہاں صرف ایک بھینس ہو تو میں اسے چارہ ضرور دوں گا۔ مولوی صاحب بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے بھی چوڑی تقریر کر ڈالی۔ اس کے بعد انھوں نے دیہاتی سے پوچھا کہ بتاوٴ خطبہ کیسا تھا؟ دیہاتی نے لمبی جمائی لی اور کہا۔ مولوی صاحب! میں ایک دیہاتی آدمی ہوں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اگر میرے سامنے ایک بھینس ہوگی تو میں ساری بھینسوں کا چارہ اس کے آگے نہیں ڈالوں گا۔
نصاب تعلیم مرتب کرنے والوں کے نام،بچوں کے بھاری بستے اسکا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
——————————–
قدیم نوادرات جمع کرنے کی شوقین ایک خاتون نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی دکان کے کاوٴنٹر پر بلی کو جس پیالے میں دودھ پلا رہا ہے اس چینی کے قدیم پیالے کی قیمت تیس ہزار ڈالر سے کم نہیں۔ خاتون نے سوچا کہ شاید یہ شخص اس پیالے کی قیمت سے ناواقف ہے۔ اس خاتون نے اپنے طور پر بے حد چالاکی سے کام لیتے ہوئے کہا۔ جناب! کیا آپ یہ بلی فروخت کرنا پسند کریں گے؟ تو اس شخص نے کہا۔ یہ میری پالتو بلی ہے، پھر بھی آپ کو یہ اتنی ہی پسند ہے تو پچاس ڈالر میں خرید لیجیے۔
خاتون نے فوراً پچاس ڈالر نکال کر اس شخص کو دیے اور بلی خرید لی، لیکن جاتے جاتے اس دکان دار سے کہا۔ میرا خیال ہے کہ اب یہ پیالہ آپ کے کسی کام کا نہیں رہا۔ برائے کرم اسے بھی مجھے دے دیجیے۔ میں اس پیالے میں بلی کو دودھ پلایا کروں گی۔ دکان دار نے کہا۔ خاتون! میں آپ کو یہ پیالہ نہیں دے سکتا، کیونکہ اس پیالے کو دکھا کر اب تک 300 بلیاں فروخت کرچکا ہوں۔
پاکستان میں بسنے والے عوام کے نام جنھیں طرح طرح سے بے وقوف بنایا جاتا ہے اور آجکل یہ کام زیادہ شدت سے جاری ہے۔