دو وقت کی روٹی
شمشاد مانگٹ
کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں مگر پاکستان کے عوام ابھی تک اس کو سنجیدہ لینے کو تیار نہیں ہیں۔سڑکوں پر اگرٹریفک کو دیکھا جائے تو گاڑیاں کم نظرآتی ہیں البتہ موٹرسائیکلوں پر پورا پورا خاندان سوار ہو کر سفر کرتا دکھائی دیتا ہے ۔سڑکوں پر موجود ٹریفک سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا عام طبقہ جو روزانہ کماتا ہے اور روزانہ کھاتا ہے وہ کورونا سے لڑنے کی بجائے کورونا کو سرعام دعوت موت دیتا دکھائی دیتا ہے جبکہ جو لوگ کھاتے پیتے ہیں اور گاڑیاں رکھتے ہیں وہ کسی حد تک کورونا کی تباہی کو سنجیدہ لے رہے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں یہ منظر عام ہے کہ پارکوں میں بیک وقت والی بال ، فٹ بال اور کرکٹ کے ساتھ ساتھ تاش اور لڈو کھیلنے والوں کے جھنڈ کے جھنڈ بیٹھے دکھائی دیتے ہیں ۔حکومت کی خواہش ہے کہ سخت اقدامات سے لوگوں میں ہیجان نہ پھیلے لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو ٹریفک سگنل پر کانسٹیبل کھڑا دیکھ کر رکنے پر یقین رکھتے ہیں اس لئے انتظامیہ کو کورونا کو بھگانے کے لئے لوگوں کو پارکوں اور کھلی جگہوں سے ان کے گھروں کو بھگانا ہو گا وگرنہ یہ لوگ بیک وقت کئی گھرانوں کو تباہ کرنے پر تیار دکھائی دیتے ہیں.
جہاں تک حکومت کی طرف سے دیہاڑی دار طبقہ سے ہمدردی اور اس کی دو وقت کی روٹی کی فکر کا معاملہ ہے تو وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم جانتی ہے کہ عالمی مارکیٹ میں 23 ڈالر فی بیرل تیل کی قیمت ہونے سے حکومت کومجموعی طور پر 665 ارب روپے امپورٹ بل کی مد میں بچت ہورہی ہے۔
لہذا وزیراعظم اس بچت کو اللہ کی غیبی مدد سمجھتے ہوئے غریب طبقے کو خصوصی سبسڈی دینے کا اعلان کردیں اس سے ان کی ساکھ کو بھی فائدہ ہو گا اور عام آدمی تو ان کے گیت کئی سال تک گاتا رہے گا۔مزید برآں حکومت کیلئے ایک اور سہولت یہ پیدا ہوئی ہے کہ آئی ایم ایف نے قرضوں کے حصول کا سلسلہ تین ماہ کے لئے معطل کردیا ہے اور اس میں اضافہ بھی متوقع ہے ۔لہذا جو تلوار وزیراعظم کی معاشی ٹیم پر 3ہزار ارب روپے کی ادائیگی کی لٹکی ہوئی تھی وہ بھی اس وقت ٹل گئی ہے ۔اس لئے یہ تین ہزار ارب روپے بھی غریب عوام کی زندگی بدلنے میں بہت کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے قرضے واپس مانگنے کی بجائے کورونا سے متاثرہ ملکوں کے لئے خصوصی فنڈز بھی قائم کردیا ہے اور پاکستان میں مسلسل پھیلتا ہوا کورونا بتا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کو پاکستان کیلئے بڑی رقم مختص کرنا پڑے گی ۔لہذا خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم کیلئے ایک زبردست اور سنہری موقع ہے۔
یہ تمام اقدامات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کو یہ بھی دھیان رکھنا ہوگا کہ یہ ساری امداد ہمدردی کا ماسک پہن کر ہر حکومت میں شامل ہونیوالا مافیا نہ لے اڑے ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے بلکہ وزارت قانون و انصاف و انسانی حقوق کی الماریوں میں وہ فائل کہیں پڑی ہو گی جو سابق وفاقی وزیر قانون وصی ظفر کی موجودگی میں زلزلہ زدگان کے لئے بطور عطیہ بھیجے گئے اڑھائی سوکاٹن لاپتہ ہونے کی خبر دیتی ہے اور پھر یہ انکوائری آگے نہیں چل سکی کیونکہ پاکستان کا یہ بھی المیہ ہے کہ جو واردات کوئی بڑا آدمی کرتا ہے اس کا کھرا کبھی نہیں ملتا۔
کورونا سے جنگ جیتنے کے لئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن بھی مکمل پلاننگ کرچکا ہے اور اس سلسلے میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن پاکستان کیلئے بڑا پیکیج تیار کرچکی ہے لیکن یہاں بھی ضرورت اس امر کی ہو گی کہ یہ ہیلتھ پیکیج حقیقی معنوں میں عوام پر خرچ ہو،مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کورونا سے لڑائی کیلئے وزیراعظم کی ٹیم میں مستقل وفاقی وزیر صحت موجود نہیں ہے ، ڈاکٹر ظفر مرزا بطور مشیر کام کررہے ہیں اور چند روز پہلے خبر آئی تھی کہ افغان بارڈر پر ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت کے ماسک سمگل کرتے ہوئے جو لوگ پکڑے گئے انہوں نے انکشاف کیا تھا یہ سمگلنگ ڈاکٹر ظفر مرزا کے کہنے پر کی جارہی تھی۔
عین ممکن ہے کہ ڈاکٹر ظفر مرزا اس گھٹیا حرکت میں ملوث نہ ہو لیکن وہ اس الزام کے بعد مشکوک ہو گئے ہیں اس لئے وزیراعظم کو چاہیے تھا کہ کورونا سے لڑائی کیلئے تیار کی گئی ٹیم کو پہلے کرپشن کے ”قرنطینہ“ میں رکھ کران کا علاج کریں وگرنہ باہر سے آنیوالی امداد غریبوں کی بجائے ایک بار پھر امیروں کی جیب میں چلی گئی تو کورونا کا دکھ دہرا ہو جائے گا کیونکہ اول اس سے لوگوں کی جان جائے گی اور دوئم ان کے نام پر آنیوالی امداد مافیا کی جیب میں چلی جائے گی اور غریب ہمیشہ کی طرح نظام کو کوسنے کے سوا کچھ نہیں کرسکیں گے ۔
وزیراعظم کو علم ہوناچاہیے کہ کورونا سے بری طرح متاثرہ بلوچستان کے پاس صرف 11وینٹی لیٹر ہیں ۔بیرونی امداد کے بعد یہ تعداد111 ہونی چاہیے اور کسی بھی پرائیویٹ ہسپتال میں مریض کو ایک رات وینٹی لیٹر پر رکھنے کا خرچ ایک لاکھ روپے ہے ۔اس لئے وزیراعظم سے اپیل ہے کہ پاکستان کے پاس غریبوں کی مدد کیلئے فنڈز باہر سے بھی بہت آئیں گے اور مخیرحضرات بھی خزانوں کے منہ کھول دیں لیکن اہم ترین مسئلہ حقدار تک اس کا حق پہنچانا ہوگا اور دو وقت کی روٹی ہرصورت پوری کرنا ہو گی۔