لاڈلے کے لاڈلے یو ٹرن
سلیم صافی
لاڈلا ہے تو چلوان کی خاطر ہم اس کو بھلادیتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے اسٹیٹس کو ختم کرنے کا نعرہ بلند کرکے سیاسی جماعت بنائی تھی لیکن پھر وہی جماعت انہی جاگیرداروں، سرمایہ داروں، شوگرمافیا اور لینڈ مافیا کے سپرد کرکے یہ نعرہ بلند کیا کہ میں آسمان سے فرشتے نہیں لاسکتا۔
چلو ہم بھلادیتے ہیں کہ اقتدار کی خاطر انہوں نے پرویز مشرف زندہ باد کا نعرہ بلند کیا ، پھر ریفرنڈم میں ان کے لئے ووٹ مانگے اور جب 2002کے انتخابات میں قرعہ فال ان کی جگہ چوہدری شجاعت حسین کا نکل آیا تو وہ ناراض ہوگئے اور آج غلط بیانی کرکے یہ کریڈٹ لینے کی کوشش کررہے ہیں کہ پرویز مشرف کے امریکہ کا ساتھ دینے کے فیصلے کی سب سے پہلے انہوںنے مخالفت کی تھی حالانکہ امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ پرویز مشرف نے 2001 میں کیا تھا جبکہ لاڈلے 2002کے انتخابات کے اعلان تک ان کے ہمنوا تھے۔
چلو ہم بھلادیتے ہیں کہ کس طرح انہوںنے شیخ رشید احمد کے بارے میں تکبر بھرے لہجے میں فرمایا تھاکہ اس کو تو میں اپنا چپراسی بھی نہ رکھوں اور آج اسی شیخ رشید کو اپنا دست راست بنا لیا ہے ۔
چلو ہم بھلادیتے ہیں کہ ڈاکٹر بابر اعوان نے ٹی وی پران کے سامنے بیٹھ کران کی ذاتی زندگی اور بنی گالہ کے گھر کے بارے میں کیا کہا تھا اور آج وہی بابر اعوان ان کے مشیر اور اسی بنی گالہ کےمعاملے میں ان کے وکیل ہیں۔
چلو ہم بھلادیتے ہیں کہ کس طرح وہ دھرنے کے موقع پر امپائر کی انگلی اٹھنے کی دہائی دیا کرتے اور خلوتوں میں اس شخص کانام لے کر بھی ان کی یقین دہانیوں کا تذکرہ کرتے تھے لیکن اب کہہ رہے ہیں کہ (نعوذباللہ) امپائر سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات تھی ۔
چلو بھلادیتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے چالیس پنکچروں کا افسانہ گھڑ کر اس کا ڈھنڈورا پیٹا اور پھر کہنے لگے کہ وہ تو ایک سیاسی بات تھی ۔
چلو ہم بھلادیتے ہیں کہ کس طرح وہ وردی والے جنرل کیانی کی تعریفیں کیاکرتے تھے اور جب ان کی وردی اتر گئی تو وہ ان پر دھاندلی کے الزامات لگانے لگے۔
چلو ہم بھلادیتے ہیں کہ ماضی میں وہ کس طرح ہندوستانی میڈیا پر بیٹھ کر دلائل دیا کرتے تھے کہ پاکستان میں کوئی سیاسی تبدیلی فوج کی مرضی کے بغیر نہیں آسکتی اور آج جب کوئی دوسرا لیڈر اس طرح کی بات کرتا ہے تو وہ اس کو غدار ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
چلو ہم بھلادیتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اقتدار میں آکر قرضہ نہیں لیں گے مگر آج خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت نے قرضہ لینے میں ماضی کی تمام حکومتوں کا ریکارڈ توڑ دیا ۔
چلو ہم بھلادیتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر پرویز خٹک کی حکومت نے میٹرو جیسا منصوبہ شروع کیا تو سب سے پہلے وہ مخالفت کریں گے اور پھر ان کی حکومت نے ایسی بی آر ٹی پروجیکٹ شروع کیا کہ جو لاہور کی میٹرو کی بنسبت غیرضروری بھی ہے اور مہنگا بھی۔
لاڈلا ہے تو لاڈلے کے لاڈلے پن کی خاطر ہم یہ اور اسی طرح کے دیگر سینکڑوںیوٹرنز کو بھلانا چاہتے ہیں ۔ ہم ان ہزاروں یوٹرنز کو ذہنوں سے محو کرنا چاہتے ہیں لیکن کیا کریں کہ وہ ہر روز کوئی نہ کوئی نئی حرکت کرجاتے ہیں ،جس کی وجہ سے پہلے والے یوٹرنز بھی دوبارہ یا د آجاتے ہیں ۔ صرف یوٹرنز ہوتے تو ان کو برداشت کرلیتے لیکن اب تو جس قدر ان کا غرور اور تکبر بڑھ رہا ہے ، اسی رفتار سے ان کی غیرسنجیدگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ یقین نہ آئے تو تازہ ترین دو مثالیں ملاحظہ کیجئے ۔
پہلی مثال : خیبر پختونخوا میں نگران وزیراعلیٰ کے لئے جے یو آئی نے منظور آفریدی کا نام تجویز کیا ۔ منظور آفریدی شریف انسان ہیں لیکن ان کا یونین کونسل تک چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ۔ نہ وہ جج رہے ہیں اور نہ بیوروکریٹ ۔ وہ ایک کاروباری شخصیت ہیں مگر کاروبار حکومت چلانے کا ان کا کوئی تجربہ نہیں۔ کچھ عرصہ سے جے یو آئی کے ممبر اور فنانسر ہیں ۔ فاٹا انضمام کے خلاف جے یو آئی کی تحریک کے بیشتر پروگرام کے فنانسر بھی آپ تھے ۔ چنانچہ صرف اور صرف پیسے کی بنیاد پر جے یو آئی نے ان کا نام تجویز کیا ۔ دوسری طرف منظور آفریدی کے دوسرے بھائی ایوب آفریدی پی ٹی آئی کے فنانسر ہیں اور اسی بنیاد پر وہ اس کے سینیٹر منتخب ہوئے ۔
واضح رہے کہ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں پختونخوا سے پی ٹی آئی نے ایک ایسی کاروباری شخصیت کوبھی سینیٹر بنادیا جن کے دوسرے بھائی مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر تھے ۔ ایوب آفریدی کی وجہ سے عمران خان اور پرویز خٹک نے بھی منظور آفریدی کو نگران وزیراعلیٰ کے طور پر تسلیم کرلیا۔ اب باقی ملک میں تو یہ غیرجانبدار لوگ ڈھونڈرہے ہیں لیکن خیبر پختونخوا میں ایسے شخص کو بطور نگران وزیراعلیٰ مان لیا کہ جو جے یو آئی کے باقاعدہ ممبر ہیں ۔ ڈھٹائی کی انتہا دیکھ لیجئے کہ نامزدگی کے اگلے روز بنی گالہ بلا کر عمران خان صاحب اور پرویز خٹک صاحب نے منظور آفریدی اور ان کے بھائی ایوب آفریدی سے ملاقات کرکے تصویر بھی میڈیا کو جاری کردی ۔
پی ٹی آئی ایک طرف یہ کریڈٹ لے رہی ہے کہ اس نے فاٹا کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام میں کردار اد اکیا لیکن دوسری طرف ایسے شخص کو نگران وزیراعلیٰ بنانا چاہا کہ جو انضمام کے مخالف تھے اور اس کے خلاف جے یو آئی کی تحریک کو فنانس کرتے رہے ۔ اب انضمام کے عمل کو عملی شکل اس نگران وزیراعلیٰ نے دینی ہے اور اگر انضمام مخالف وزیراعلیٰ بن جاتا تو وہ کیوں کر اس کو عملی شکل دینے کی سنجیدہ کوشش کرتے ۔چنانچہ پورے صوبے میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا ۔
اپوزیشن جماعتوں نے اعتراضات اٹھالئے اور اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر اے این پی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے الزام لگایا کہ گلی گلی محلے محلے نگران وزیراعلیٰ سے رقم لینے کی باتیں ہورہی ہیں ۔ چنانچہ اس دبائو کی وجہ سے منظور آفریدی کا نام تو واپس لے لیا گیا لیکن ایک طرف اس شریف انسان اور ان کے خاندان کو پورے پاکستان میں رسوا کرکے رکھ دیا اور دوسری طرف اسمبلی کے خاتمے کے بعد کئی دن گزرنے کے بعد بھی آج تک نگران وزیراعلیٰ نہیں ہے۔
دوسری مثال:صوبہ پنجاب کے لئے سابق بیوروکریٹ ناصر کھوسہ کا نام تجویز کیا گیا ۔ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر اور لیڈر آف دی اپوزیشن میاں محمود الرشید کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ نام عمران خان صاحب کے حکم پر تجویز کیا اور انہی کے حکم پر اس پر اصرار کرتے رہے ۔ خود انہی کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجا ب شہباز شریف کسی اور نام پر مصر رہے ۔ بہرحال شہباز شریف نے پی ٹی آئی کی تجویز مان لی ۔ دونوں رہنمائوں نے مل کر پریس کانفرنس میں ناصر کھوسہ کے نام پر اتفاق کا اعلان کیا ۔
اگلے دن کسی نے آکر لاڈلے کو خبر دی کہ یہ کھوسہ صاحب تو کسی زمانے میں شہباز شریف کے سیکرٹری رہے ہیںاور انہوں نے آج میڈیا کے سامنے ان کی تعریف بھی کی ہے ۔ پھر کیا تھا کہ پی ٹی آئی نے ان کو بطور نگران وزیراعلیٰ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اب کوئی لاڈلے سے پوچھنے کی جرات نہیں کرتا کہ بھائی اگر آپ نے نام تجویز کرنا تھا تو پہلے معلوم کرلیتے کہ بندہ کون ہے اور ان کا پس منظر کیا ہے اور کیا ماضی میں شہباز شریف کا سیکرٹری رہ جانا ہی کسی بندے کے لئے ڈس کوالیفکیشن بن جاتا ہے ۔
مجھے ڈر ہے تو کہ اگر کسی نے انہیں خبر دی کہ جہانگیر ترین بھی ماضی میں شہباز شریف کی ٹیم کا حصہ رہے ہیں ، شاہ محمود قریشی بھی کسی زمانے میں مسلم لیگی تھے اور اسد عمر بھی گھر میں اپنے مسلم لیگی بھائی زبیر عمر کے ساتھ مل کر کیریئر پلاننگ کرتے ہیں تو کہیں وہ ان کو بھی فارغ نہ کردیں۔
اگر چہ قانونی لحاظ سے اب پی ٹی آئی اپنی تجویز واپس نہیں لے سکتی لیکن ناصر کھوسہ چونکہ پی ٹی آئی کی قیادت جیسے نہیں بلکہ اصولوں پر یقین رکھنے والا انسان ہیں ، اس لئے انہوں نے خود معذرت کرلی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک شریف انسان جو آرام سے اپنے گھر میں بیٹھے تھے بھی رسوا کئے گئے اور دوسری طرف آج پنجاب بھی نگران وزیراعلیٰ سے محروم ہے ۔
یہی بات تھی ہم ان لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ جو نوازشریف اور زرداری کی نفرت میں اس شخص کو قوم کے سروں پر مسلط کرنا چاہ رہے تھے لیکن کوئی سمجھنے کو تیار نہیں تھا۔خواہشات پر کوئی قدغن نہیں لگا سکتا لیکن وہ لوگ جو لاڈلے کی وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھ رہے ہیں، ان سے بصدادب و احترام سوال ہے کہ کیا اس ملک کے محافظین ایسے شخص کو ایٹمی پاکستان کی ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھانے کا رسک لے سکتے ہیں؟
(بشکریہ جنگ)