میاں نواز شریف کا مستقبل

0

جاوید چوہدری

26 نومبر 2008ء کی رات10 سے گیارہ بجے کے درمیان دس دہشت گرد ممبئی کے آٹھ مقامات کلابا‘ نریمان ہاؤس‘ سی ایس ٹی ریلوے اسٹیشن‘ تاج محل ہوٹل‘ اوبرائے ہوٹل‘لیپوڈ کیفے‘ سینٹر کروز اور ولے پارلے میں داخل ہوئے‘ اندھا دھند فائرنگ کی‘ گرنیڈ پھینکے اور 157 لوگ ہلاک اور 600 زخمی ہو گئے۔

تاج محل ہوٹل پر29نومبر کی صبح8 بجے تک دہشت گردوں کا قبضہ رہا‘ یہ حملے پوری دنیا میں ’’بریکنگ نیوز‘‘ بنے‘ یہ حملے بھارت کے سیکیورٹی سسٹم کے لیے رنگ کاٹ ثابت ہوئے‘ دنیا نے دیکھا دس دہشت گردبھارت جیسی ابھرتی معاشی اور دفاعی طاقت کی چند گھنٹوں میں ناک رگڑ سکتے ہیں‘ تاج محل ہوٹل پر صرف چاردہشت گرد قابض تھے۔

بھارت کی فوج‘ پولیس اورنیشنل سیکیورٹی گارڈزکو ہوٹل کلیئر کرانے میں 57گھنٹے لگ گئے‘ ممبئی اٹیکس سے بھارت کو آگے چل کر 20بلین ڈالر کا معاشی نقصان ہوا‘ انڈیا کی سافٹ ویئر انڈسٹری تباہ ہوگئی‘ سیاحت‘ ہوٹلوں اور ریستورانوں کی صنعت کو نقصان پہنچا اور بھارت کے کروڑوں لوگوں کے لیے نیند کی گولیوں کے بغیر سونا مشکل ہو گیا لہٰذا ممبئی اٹیکس نے بھارت کو ہر لحاظ سے نقصان پہنچایا‘ پولیس نے حملوں کے دوران گڑگاؤں چوپاتی سے اجمل قصاب کو گرفتار کر لیا‘یہ اوکاڑہ کے قریب موجود گاؤں فرید کوٹ کا شہری نکلا ۔
را نے اجمل قصاب کے اعترافی بیان کو بنیاد بنا کر دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف یہ پروپیگنڈا شروع کردیا’’ یہ 10دہشت گرد بوٹ کے ذریعے پاکستان سے ممبئی پہنچے ‘ یہ لشکر طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ ذکی الرحمن لکھوی نے لانچ کیے تھے اور یہ آپریشن کے دوران کراچی سے رابطے میں تھے‘‘وغیرہ وغیرہ ‘بھارت اسے ’’ریاستی دہشت گردی‘‘ ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتا رہا۔

پاکستان میں اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی‘ شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ‘ رحمن ملک وزیر داخلہ‘ اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف اور لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘ مجھے آج بھی یاد ہے لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے 27 نومبر کی شام 6 اینکر پرسنز کو آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر بلایا تھا‘ ہم نے اعتراض کیا بھارت کا میڈیا پاکستان پر مسلسل الزام لگا رہا ہے‘ ہم پاکستانی صحافی اکیلے یہ جنگ لڑ رہے ہیں‘ حکومت کیوں نہیں بول رہی؟ جنرل پاشا کا جواب تھا‘ ہم بھی اس رویئے پر حیران ہیں‘ حکومت کو بولنا چاہیے۔

جنرل پاشا نے اس میٹنگ میں صاف کہا ’’پاکستانی ریاست یا کوئی ریاستی ادارہ ممبئی حملوں میں انوالو نہیں‘ یہ لوگ اگر پاکستانی ہیں تو یہ خود وہاں گئے اور یہ حملے ان کا ذاتی فعل ہے‘‘ جنرل پاشا نے یہ بھی کہا ’’نائین الیون کے 15 ذمے داروں کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔

امریکا نے آج تک نائین الیون کو سعودی عرب کا ریاستی حملہ نہیں کہا چنانچہ ہم چند لوگوں کے ذاتی ایکٹ کو پاکستان کا ریاستی حملہ کیسے مان لیں‘‘ جنرل پاشا کا کہنا تھا ’’ہم اس حملے کے مختلف پہلوؤں پر غور کر رہے ہیں‘ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں یہ حملہ کہیں بھارت کے اپنے لوگوں نے تو نہیں کیا‘ہم اس کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچ سکیں گے‘‘ ہم لوگ جنرل پاشا کی وضاحت سے مطمئن ہو گئے۔

صدر آصف علی زرداری نے اس حملے کو پہلی بار ’’نان اسٹیٹ ایکٹرز‘‘ قرار دیا‘ یہ اصطلاح اس سے قبل پاکستانی میڈیا میں نہیں آئی تھی‘ پاکستان میں ممبئی اٹیکس کے بعد چند بڑی تبدیلیاں آئیں‘ بھارت کے دباؤ پر12 فروری 2009ء کو حافظ سعید‘ ذکی الرحمن لکھوی‘ حماد امین صادق‘ مظہر اقبال اور یونس انجم کو گرفتار کر لیا گیا‘ پاکستان ان کی گرفتاری کے بعد بھارت سے ثبوتوں کا مطالبہ کرنے لگا لیکن بھارت نے آج تک ثبوت پیش نہیں کیے۔

بھارت نے پاکستان کو اجمل قصاب تک رسائی بھی نہیں دی چنانچہ ذکی الرحمن لکھوی9 اپریل 2015ء کو ضمانت پر رہا ہو گئے‘ پاکستان نے ہر فورم پر تفتیش اور تحقیقات میں بھارت کی مدد کا عندیہ دیا لیکن بھارت نے آج تک ’’کو آپریشن‘‘ نہیں کیا تاہم صدر آصف علی زرداری‘ وزیرداخلہ رحمن ملک‘ امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزرجنرل محمود درانی یہ تسلیم کرتے رہے ممبئی اٹیکس میں شامل لوگ ’’نان اسٹیٹ ایکٹرز‘‘ تھے۔

یہ لوگ اپنے طور پر بھارت گئے تھے‘ ریاست کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا‘ ایف آئی اے کے ڈی جی طارق کھوسہ نے 3 اگست 2015ء کو ڈان میں مضمون لکھا اور تفتیش کی بنیاد پر تسلیم کر لیا یہ لوگ پاکستانی نان اسٹیٹ ایکٹرز تھے اور اس آپریشن کے لیے پاکستانی سرزمین استعمال ہوئی لیکن بھارت نے ان لوگوں کو نان اسٹیٹ ایکٹرز ماننے سے بھی انکار کر دیا اور ممبئی اٹیکس کا بدلہ لینے کے لیے افغانستان اور ایران میں بھاری سرمایہ کاری اور کلبھوشن یادیو جیسے جاسوسوں کے ذریعے طالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو سرمایہ‘ اسلحہ‘ بارود اور ٹریننگ بھی دینا شروع کر دی یوں پاکستان دہشت گردی کے خوفناک فیز میں داخل ہوگیا۔

بھارت نے ممبئی اٹیکس کا بدلہ لینے کے لیے اکتوبر 2009ء میں ہمارے جی ایچ کیو پر حملہ بھی کرایا‘ بھارت ان حملوں کو عالمی سطح پر کوریج بھی دلاتا رہا جس سے پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں شمار ہونے لگا‘ سرمایہ کار بھاگ گئے‘ سفارتخانوں نے عملہ کم کر دیا اور پاکستان کے اپنے متمول لوگ بھی دوبئی اور یورپ میں شفٹ ہونے لگے‘ یہ سلسلہ چلتا رہا اور 2013ء آ گیا‘ میاں نواز شریف بھاری اکثریت کے ساتھ وزیراعظم بن گئے‘یہاں سے دوسرا فیز شروع ہوا۔

ہم اگر میاں نواز شریف کی شخصیت اور 2013ء سے 2018ء کے درمیان ہونے والے واقعات کا تجزیہ کریں تو ہم چند نتائج پر پہنچیں گے‘مثلاً میاں نواز شریف فوج کے خلاف ہیں‘ یہ اختلافات جنرل ضیاء الحق کے دور سے شروع ہو گئے تھے‘ جنرل ضیاء الحق میاں نواز شریف کو چوہدری صاحبان کے سامنے ڈانٹ دیتے تھے‘ یہ وہ بے عزتی آج تک نہیں بھولے‘ یہ جنرل اسلم بیگ‘ جنرل آصف نواز جنجوعہ اور جنرل عبدالوحید کاکڑ کے ’’کردار‘‘ پر بھی دکھی ہیں۔

جنرل غلام محمد ملک(کمانڈر دس کور) نے 1993ء میں نواز شریف کے کندھے پر چھڑی رکھ کر کہا تھا ’’سٹ ڈاؤن ینگ مین‘‘ اور پھر فوج نے ان سے استعفیٰ لے لیا تھا‘میاں صاحب یہ بھی نہیں بھولے‘ میاں صاحب کے دل پر جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل پرویز مشرف کے لگائے ’’زخم‘‘ بھی ابھی تک موجود ہیں چنانچہ یہ سمجھتے ہیں جمہوریت اور جنرلز دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔

نواز شریف حقانی نیٹ ورک ‘لشکر طیبہ اور جیش محمد کا مکمل خاتمہ بھی چاہتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں ممبئی اٹیکس ہوں‘ پٹھان کوٹ کا واقعہ یا پھر اڑی حملہ ہو ہم یہ حملے روک سکتے تھے‘ یہ ذاتی محفلوں میں بار بار چین اور روس کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔

یہ کہتے ہیں ’’مجھے چین اور روس کے صدر نے بھی کہا تھا‘ آپ اپنے نان اسٹیٹ ایکٹرز کو روکیں‘ ہم زیادہ دیر تک آپ کی مدد نہیں کر سکیں گے‘‘ اور یہ سمجھتے ہیں ’’ہم جب تک بھارت کے ساتھ اپنے معاملات درست نہیں کر لیتے‘ ہم ترقی نہیں کر سکتے‘‘ یہ بھارت کے ساتھ بارڈرز بھی کھولنا چاہتے ہیں اور تجارتی تعلقات بھی استوار کرنا چاہتے ہیں تاہم یہ حقیقت ہے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف دونوں بھائیوں میں فوج‘ افغانستان اور انڈین پالیسی پر اختلاف ہے۔

میاں شہباز شریف فوج کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں ہمیں کام کرنا چاہیے‘ ہمارا کام کبھی نہ کبھی ہمیں فتح یاب کر دے گا جب کہ میاں نواز شریف فوج سے مقابلہ بھی چاہتے ہیں اورافغان اور انڈین پالیسی بھی بدلنا چاہتے ہیں‘ ان ایشوز پر مریم نواز‘ پرویز رشید اور طارق فاطمی ان کے ساتھ ہیں‘ مشاہد حسین سید بھی اب اس فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔

پارٹی کے سینئر لوگوں کا خیال ہے سرل المیڈا کے ڈان ٹو کے متنازعہ فقرے کے ڈیزائنر بھی مشاہد حسین سید ہیں‘ پارٹی بھی نواز شریف کے نقطہ نظرکے خلاف ہے‘ پارٹی سمجھتی ہے ملک اسٹیبلشمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ ملک ہے‘ ہم ان سے لڑ کر سیاست کر سکتے ہیں اور نہ ہی حکومت لیکن یہ بھی درست ہے فوج سے تمام اختلافات کے باوجود میاں نواز شریف ’’اینٹی پاکستان‘‘ نہیں ہیں اور فوج بھی ان کی وفاداری کو تسلیم کرتی ہے‘ ہم اب تازہ ترین ایشو کی طرف آتے ہیں۔

حکومت نے 6 اکتوبر2016ء کو سرل المیڈا کے ذریعے ڈان میں ایک خبر لیک کرائی‘ وہ خبر ڈان لیکس کے نام سے مشہور ہوئی‘ آپ کسی فرانزک ایکسپرٹ سے خبر کے الفاظ اور طارق فاطمی کے ڈرافٹس کا تجزیہ کرا لیں‘ آپ کو حقیقت تک پہنچتے دیر نہیں لگے گی‘ پرویز رشید نے خبر کی اشاعت میں سہولت کاری کی تھی چنانچہ یہ دونوں لوگ وزارتوں سے فارغ ہو گئے‘ مریم نواز کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا لہٰذا یہ بچ گئیں‘ جنرل باجوہ نے 9 مارچ کو صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں یہ تسلیم کیا تھا’’ڈان لیکس میں مریم نواز انوالو نہیں تھیں‘‘12مئی کو ایک بار پھر ڈان اور سرل المیڈا استعمال ہوئے۔

نواز شریف نے اس انٹرویو میں کہا’’عسکریت پسند تنظیمیں متحرک ہیں‘ کیا ہمیں انھیں اجازت دینی چاہیے یہ سرحد پار کریں اور یہ ممبئی میں 150 لوگوں کو مار دیں‘‘سرل المیڈا کی یہ دونوں خبریں بھارتی میڈیا میں ’’اوور پلے‘‘ ہوئیں۔

’’اوورپلے‘‘ کا یہ کام بھارتی گجرات کے ایک ارب پتی بزنس مین نے کیا‘ یہ بزنس مین نریندر مودی اور میاں نواز شریف کے درمیان رابط ہیں چنانچہ کہا جاسکتا ہے نریندر مودی اور امریکا میاں نواز شریف کے ان خیالات کے بینی فیشری ہیں‘ یہ دونوں ’’ہم نہ کہتے تھے یہ گند پاکستان پھیلا رہا ہے‘‘کا واویلا کر کے پاک فوج کو ٹائیٹ کر رہے ہیں۔

ہم اگر ان واقعات کا تجزیہ کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے میاں نواز شریف عنقریب افغانستان اور کارگل کے بارے میں بھی ایسی ہی’’حق گوئی‘‘ کا مظاہرہ کرسکتے ہیں‘ یہ حقانی نیٹ ورک کے بارے میں بھی انکشافات کرسکتے ہیں اور یہ انکشافات افغانستان‘ امریکا اور بھارت کے میڈیامیں ’’اوور پلے ‘‘ہوں گے اور یہ میاں نواز شریف کی سیاست اور زندگی دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہوں گے‘ کیوں؟یہ ہم کل ڈسکس کریں گے۔

(بشکریہ ایکسپریس)

Leave A Reply

Your email address will not be published.