سیاسی سکرپٹ
شمشاد مانگٹ
ملک میں سیاسی ”وباء“ تیزی سے پھیلنا شروع ہوگئی ہے۔یہ ایک ایسی وباء ہے جو70سال سے مسلسل ہمارا پیچھا کر رہی ہے۔اس وباء کا شکار بدقسمتی سے ہمارے تمام ادارے ہیں۔اگر زیادہ ماضی کو نہ بھی کھنگالا جائے اور صرف2002ء سے2013ء اور اب پیدا ہونے والے سیاسی”جراثیموں“ کو ہی پرکھ لیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ جمہوریت کے نام پر پھیلائی گئی اس بیماری کے ذریعے کیسی کیسی”وارداتیں“قوم کے ساتھ ہوچکی ہیں اور اب تازہ”واردات“ کا سکرپٹ لکھا ہوا دکھائی دینے لگا ہے۔
2002ء میں سیاسی واردات کیلئے ہم خیالوں کے نام پر ابتدائی اینٹ رکھی گئی تھی اور پھر انہیں مسلم لیگ(ق) کا نام دیکر سیاسی اکھاڑے میں اتار دیاگیا۔الیکشن میں جانے سے پہلے نیب نے سیاسی وفاداریاں تبدیل کروانے کیلئے مؤثر ہتھیار کا کردار ادا کیا تھا۔الیکشن کے بعد جب پیپلزپارٹی نے اچھی خاصی نشستیں حاصل کرلیں تو پھر نیب کی کوششوں سی پی پی پی کے اندر سے”محب وطن“گروپ نے جنم لیا اور مسلم لیگ(ق) کی وفاقی حکومت میں اہم وزارتیں لیکرجنرل پرویز مشرف کے اقتدار کو مضبوط کردیا۔
2008ء کے الیکشن کے بارے میں خود چوہدری شجاعت حسین نے دعویٰ کردیا ہے کہ وہ دھاندلی شدہ الیکشن تھے اور امریکہ کی خواہش تھی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالیں۔چوہدری شجاعت حسین معتبر سیاستدان ہیں اور انکی اس اطلاع کی تردید تاحال کسی پارٹی کی طرف سے نہیں کی گئی ہے۔
2013ء کے الیکشن ریٹرننگ آفیسرز کے نام سے منسوب ہوگئے۔ان انتخابات کو پیپلزپارٹی آر او کے انتخابات اور تحریک انصاف”پنکچرز“والے انتخابات کے نام سے منسوب کرتی ہے۔
اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں کو اچانک اپنے صوبے کی غربت اور”پسماندگی“ کے احساس نے گھیر لیا ہے۔میربلخ شیرمزاری،نصراللہ دریشک،خسروبختیار اور بشیر چیمہ سمیت رضاحیات ہراج کا ضمیر بھی گزشتہ ایک ماہ سے مسلسل”کچوکے“لگا رہا ہے کہ جنوبی پنجاب کے وسائل کو تختِ لاہور نے نگل لیا ہے۔
جنوبی پنجاب کی سیاست میں جمشید دستی صحیح معنوں میں”عوامی راج“ کی سیاست کر رہے ہیں اور وہ ان سب ”کلغی“ والے سیاستدانوں کے منہ پر بیٹھ کر کہتے ہیں کہ تمہارا مسئلہ جنوبی پنجاب کے عوام کی محرومیاں نہیں ہیں بلکہ تمہارا مسئلہ ہر حکومت کے ساتھ ”شاملِ باجا“ ہوکر مقامی انتظامیہ اور پولیس کو اپنے قابو میں رکھنا ہے۔
جمشید دستی کے سچ کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل درست ہے کہ جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ تختِ لاہور نے ان کے وسائل کو کیوں لوٹا ہے؟ بلکہ پس پردہ موسیقی دینے والے”فنکار“ نے ان سیاستدانوں کو آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ(ن) سے آزاد ہوکر میدان سیاست میں اترنے کیلئے محفوظ راستہ دیا ہے۔
اگر مستقبل قریب میں جنوبی پنجاب کو الگ صوبے کے طور پر تسلیم کرلیا گیا تو یہ تمام سیاستدان اس طرح کریڈٹ لینے کیلئے دوڑ پڑیں گے جس طرح شادی بیاہ پر کھانا لینے کیلئے باراتی ”پھرتی“ دکھاتے ہیں۔الگ صوبے کی خواہش رکھنے والے ان”جگادری“سیاستدانوں نے4 سال10ماہ مسلم لیگ(ن) کے طرزِ حکومت پر ایک بار بھی انگلی نہیں اٹھائی اور اب اچانک انکے ضمیر کا جاگ اٹھنا بتا رہا ہے کہ پس پردہ سیاسی ”فنکاروں“ نے تمام جماعتوں کو اقتدار کی”لنگڑی“ کرسی پر بٹھانے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے۔
آئندہ انتقالِ اقتدار کی موجودہ ڈاکٹرائن کی پہلی جھلک اس وقت نظر آئی تھی جب بلوچستان میں صرف5نشستیں رکھنے والے عبدالقدوس بزنجو کو وزارت اعلیٰ پر بٹھا دیا گیا تھا۔ابھی لوگ اس فلسفے کو ہضم کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ثناء اللہ زہری کے خلاف اس لئے بغاوت ہوئی کہ انہوں نے مسلم لیگ(ن) کے ساتھیوں کو مکمل نظرانداز کردیا تھا اور میاں نوازشریف نے بلوچستان سے ”بے رخی“ برتنا شروع کردی تھی۔پھر اس”ڈاکٹرائن“ کی دوبارہ شکل سینیٹ الیکشن میں دوبارہ ابھری اور22کروڑ عوام نے دیکھا کہ آزاد امیدوار بھرپور طریقے سے جیت گئے اور آصف علی زرداری نے بھی”کمال“کر دکھایا۔ اور سیاسی ”فنکاروں“ نے ایک تیر سے کئی شکار کرکے ماضی کے ریکارڈ توڑ دیئے۔
آزاد امیدواروں کو کامیاب کروا کر تمام سیاسی جماعتوں کو پیغام دیاگیا کہ اقتدار کا سرچشمہ اب بھی اسٹیبلشمنٹ ہی ہے اور پھر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کیلئے پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو اکٹھا کرکے دکھایا گیا کہ”فنکار“آگ اور پانی کو بھی اکٹھا کر سکتے ہیں۔اس آگ اور پانی کو اکٹھا کرکے فنکار دوستوں نے عمران خان کو بھی پیغام دے دیا کہ آپ کا فلسفہء”ایمانداری“حتمی حیثیت نہیں رکھتا اور اسٹیبلشمنٹ اگر چاہے گی تو آپ کو آج آصف علی زرداری اور کل میاں نوازشریف کے ساتھ بھی بیٹھنا ہوگا۔
جنوبی پنجاب سے آزاد گروپ کے میدان میں اترآنے کے بعد تحریک انصاف کی قیادت کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔کیونکہ اس ڈاکٹرائن کے ذریعے مسلم لیگ(ن)،پیپلرپارٹی اور تحریک انصاف کو بظاہر ایک دوسرے کا محتاج بنا دیا جائے گا لیکن حقیقتاً تینوں جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی محتاج ہوں گی۔کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس آزاد گروپ کے ایم این ایز کے ساتھ ساتھ ایم ایم اے کے بادشاہ گر مذہبی رہنما بھی ہوں گے اور اس کے علاوہ چوہدری شجاعت حسین کی متحدہ مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کے مہرے بھی اسٹیبلشمنٹ کے”اشارہء ابرو“ کے غلام نظر آئیں گے۔
صادق سنجرانی کے چیئرمین سینیٹ بننے کے بعد اب زیادہ سیاستدانوں کا خیال ہے کہ وہ آزاد حیثیت میں رکن قومی اسمبلی کا الیکشن جیت کر آئیں کیونکہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ آئندہ وزیراعظم آزاد گروپ سے ضرور لیا جائے گا لیکن وہ کسی کام کیلئے”آزاد“ نہیں ہوگا۔
بدلتی ہوئی صورتحال سے لگتا ہے کہ کنٹرولڈ ڈیموکریسی کی ”جو ڈاکٹرائن“ ایوب خان نے متعارف کروائی تھی اور بعد ازاں جنرل ضیاء الحق نے بھی آزاد الیکشن کے ذریعے اسکا مؤثر استعمال کیا اور اب پھر یہ ”وباء“ آزاد گروپ کی شکل میں نمودار ہونے والی ہے۔ جمہوریت کے نام پر عوام کے ساتھ ہونے والی سیاسی ”دھوکہ دہی“ کی وارداتوں کے بعد اب عوام اس کو”سیاسی کُت خانہ“ کے نام سے یاد کرنے لگے ہیں۔
جس طرح ہمارے ہاں میاں نوازشریف کو اداروں سے لڑنے کی بیماری ہے اور عمران خان کو سوچ بچار کے بغیر بیان دینے اور آصف علی زرداری کو سیاسی گھوڑے خریدنے اور مولانا فضل الرحمان کو ہر حکومت کے ساتھ مل بیٹھنے کی بیماری ہے بالکل اسی طرح ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی تمام سیاسی گھوڑوں کی ”تنابیں“ اپنے ہاتھ میں رکھنے کی بیماری ہے۔اور یہ وہی بیماری ہے جسکے بارے میں شاعر نے بھی کہا تھا کہ ”مرض“بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“ ‘آئندہ الیکشن مسلم لیگ(ن) کی نسبت تحریک انصاف کیلئے زیادہ خطرناک ہونگے کیونکہ تحریک انصاف نے اگر اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر سیاست کرنا چاہی تو وہ ایسا سیاسی پھول ہوں گے جو بن کھلے مرجھاجائے۔
اور اگرانہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے قدموں پر قدم رکھ کرسیاست کی تو انہیں آزاد گروپ کی غلامی پر مجبور کیا جائے گا اور یہ ”غلامی“ تحریک انصاف کی سیاسی موت ہوگی۔بہرحال عوام ایک اور سیاسی دھوکے کیلئے تیار رہے۔