مرشد نے پھر چوہا بنا دیا
شمشاد مانگٹ
ہمارے ایک دوست حال ہی میں بنک سے ”انعام واکرام“کے ساتھ”باعزت“ ریٹائر ہوئے ہیں۔باعزت ریٹائرمنٹ پر اس لئے زور دیا ہے کہ سرکاری بنک سے باعزت ریٹائر ہونا بہت بڑی سعادت مندی ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب بندہ بڑے عہدے پر فائز ہو۔وگرنہ سرکاری بنک کا مال اور دلِ بے رحم کی کئی کہانیاں آئے روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ہمارے دوست نے سرکار کے بنک میں بہت محنت سے کام کیا اس لئے بنک کے بڑوں نے انہیں کبھی”بونس“نہیں دیا کیونکہ وہ ”ملی بھگت“ سے خدمات سرانجام دینے کیلئے تیار نہیں تھے البتہ قدرت نے انہیں اپنا بونس دوسری زوجہ کی شکل میں بنک کے ذریعے ہی عطا کیا۔ہمارے دوست کی اس حوالے سے قسمت ایسی زبردست ہے کہ دوسری زوجہ بھی پہلی کی طرح نیک سیرت اور شوہر کی خدمت گزارر ہے۔
ہمارے دوست کو پہلے بھی بزرگوں کے آستانوں سے بہت عقیدت تھی اور اب یہ عقیدت ریٹائر منٹ کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہے گزشتہ دنوں ان سے بیٹھک ہوئی تو انہوں نے ایک زبردست روحانی واقعہ سنایا اور حیرت انگیز طور پر اس روحانی قصے کا تعلق ہماری سیاست سے بھی قدرتی طور پر جڑا ہوا نظر آتا ہے ریٹائرڈ بینکار دوست نے اس قصے کاآغاز بالکل اسی طرح کیا جس طرح بچپن میں دادی اما ں الف لیلوی کہانی شروع کیا کرتی تھیں ۔ سیاست سے بھر پور یہ روحانی قصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ جنگل میں ایک بزرگ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ کا قرب پا لینے کے لئے یہ بزرگ دنیا سے ناطہ توڑ کر جنگل میں بسیرا کئے ہوئے تھے۔
بزرگ ایک دن جنگل میں حسب معمول عبادت میں مشغول تھے کہ اسی اثناء میں ایک چوہا ہانپتا کانپتا ان کے سامنے آ کھڑا ہوا ۔ بزرگ نے چوہے کو بہت پیار سے پوچھا میاں کیا بات ہے ؟ چوہے نے ہچکیاں لے کر رونا شروع کر دیااور پھر بزرگ کی پیار بھری تسلیاں سننے کے بعد سنبھل کر بولا حضور میری بھی کوئی زندگی ہے بلی ہر وقت میرے تعاقب میں لگی رہتی ہے میں اپنی خوراک کی تلاش میں نکلتا ہوں تو بلی مجھے خوراک بنانے کے لئے آ پہنچتی ہے ۔ بزرگ کو چوہے کی بپتا سن کر دکھ ہوا اورکہنے لگے کہ اگر تمہیں بلی بنا دوں تمہار ے دکھ دور ہو جائیں گے ؟
چوہے نے فوراً ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہوجائے تو میرا خاندان تمام عمر آپ کے لئے دعاگو رہے گا
بزرگ نے اللہ تعالی سے دعا کی اورچوہا پلک جھپکتے ہی بلی کی شکل اختیارکر گیا ۔
کچھ دنوں بعد بزرگ نے دیکھا بلی نما چوہا پھر آہ زاری کرتے ہوئے آ گیا اور بزرگ کے پوچھنے پر بولا حضور اب تو پہلے سے بھی زیادہ خطرات لاحق ہو گئے ہیں ۔
اللہ کے نیک بندے نے استفسار کیا کہ اب کیا ہوا آپ کو ؟ تو بلی نے کہا جب سے آپ نے بلی بنایا ہے اس دن سے کتے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ا ب میری بچت اسی میں ہے کہ آپ مجھے کم از کم کتے سے زیادہ طاقتور جانور بنا دیں ۔
بزرگ کو رحم آ گیا اوراس نے ایک بار پھر اللہ تعالیٰ سے ”ہارٹ لائن“ پر رابطہ کیااور چوہے کو گریڈ تھری میں ترقی دے کر بلی سے لومڑی میں بدل دیا۔
کچھ ماہ گزرنے کے بعد بزرگ درویش نے ایک بار پھراسی چوہے کو لومڑی کی شکل میں اپنے سامنے حیران اور گھبرایا ہوا پایا ۔ درویش کے دریافت کرنے پر لومڑی نے انتہائی معصومانہ شکل بنا کر کہا کہ حضور آپ کا آخری دیدار کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں کیونکہ جب سے لومڑی کے ”گریڈ“ پر ترقی ملی ہے اس دن سے جنگل کے بادشاہ کی فرمائشیں پوری کر کر کے تھک گیا ہوں اچھے اچھے صحت مند جانور وں کو گھیر کر شیر کی کچھار تک لانا میری ذمہ داریوں میں شامل ہے اور جس دن کوئی جانور میرے جال میں نہیں پھنستا اس دن شیر کا ارادہ ہوتا ہے کہ وہ مجھ پر ہاتھ صاف کرلے۔
چونکہ جنگل کے جانور اب مجھ پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں اس لئے جس دن ”بادشاہ سلامت“ کو بھوک نے زیادہ ہی بے حال کر دیا تو یقیناً میںآ سان ترین ہدف ہوں گا اسی لئے میں نے سوچا کہ بادشاہ سلامت کی خوراک بننے سے پہلے اپنے محسن کا دیدار ہی کر آؤں ۔ درویش نے کچھ سوچا اور پھونک مار کر لومڑی کو شیر کی شکل میں بدل دیا اور یہ منظر دیکھ کر ”ٹمپرڈشیر“ نے مرشد کے رو برو باقاعدہ دھمال بھی ڈالی اور دعائیں دیتا ہوا وہاں سے رخصت ہو گیا۔
چوہے سے شیر تک کا سفر طے کرنے کے بعد جنگل کے نئے بادشاہ نے پرانے بادشاہ کو شکست سے دو چار کیا اور تمام جانوروں کو بلا کر” اعتماد کا ووٹ“ بھی حاصل کر لیا۔معمولی چوہے سے شیرکے منصب تک پہنچنے کے بعد جنگل کے نئے بادشاہ کو جانوروں کی طرف سے خوشامدانہ گفتگو کا بھی مزہ آنے لگ گیا اور جانوروں کی تابعداری دیکھتے ہوئے نئے شیر نے اپنے دیدار کا ایک دن مقرر کر دیا اور ساتھ ہی جانوروں کی تمام برادریوں پر ٹیکس بھی عائد کر دیا ۔ نئے بادشاہ سلامت نے ہرن ، بارہ سنگھا ، زیبرا ، بیل ، جنگلی بھینسا اور خرگوش وغیرہ سب کوپابندکر دیا کہ تمام جانور ہفتہ میں ایک ایک دن از خود اپنا صحت مند ترین جانور بادشاہ کو کھانے کیلئے پیش کریں گے تاکہ بادشاہ کو زیادہ مشکل نہ ہو۔
اسی جنگل میں کچھ عرصے سے ایک گدھا بھی سکونت اختیار کیے ہوئے تھا ۔ گدھے نے جنگل کے جانور وں پر اپنی دانائی کی دھاک بٹھائی ہوئی تھی اور گدھا اکثر محفلوں میں ان جانوروں کوبتاتا رہتا تھا کہ شہروں میں رہنے والے انسان جنگل کے جانوروں سے بھی بدتر ہو چکے ہیں ۔ اور اسی وجہ سے میں جنگل میں آ گیا ہوں کہ پہلے انسان میرا گوشت حرام سمجھتے تھے لیکن اب میرا گوشت بکرے کے بھاؤ کھاتے ہیں اور میری کھال دگناقیمت پر بیچتے ہیں۔ گدھے نے تمام جانوروں کو بتایا ہوا تھا کہ میں حالات کے معمول پر آنے تک جنگل میں ”سیاسی پناہ“ لئے ہوئے ہوں۔
ایک دن گدھے نے جانوروں سے گپ شپ کرتے ہوئے اچانک ایک سوال کھڑا کیاکہ جنگل کا نیا بادشاہ عجیب و غریب حرکتیں کرتا ہے ۔جنگل کے بادشاہوں کو دیدار سے کبھی غرض نہیں رہی اور جنگل کے بادشاہ ہمیشہ خود شکار کر کے کھانے کے عادی ہوتے ہیں اور اس نے جانوروں پر ”ٹیکس “ لگا کر اپنی خوراک کا بندوبست کرنا شروع کر رکھا ہے اور کئی بار”انسانی“حرکتیں بھی کرتا ہے۔گدھے کی یہ بات جب شیرتک پہنچی تواس کو شک گزرا کہ یہ کسی نہ کسی ”درویش لیکس “ کا نتیجہ ہے جس نے میرا راز گدھے پر فاش کر دیاہے کہ میں اصل میں تو چوہا ہوں۔ دوسری طرف جنگل کے جانور بھی نئے بادشاہ کے ظلم و ستم سے درویش کو آگاہ کر چکے تھے۔ شیرجب کھسیانا سا ہو کر درویش کے پاس پہنچا تو درویش نے حسب معمول سوال کیا کہو ”میاں“ کیسے آئے ہو ؟
شیر نے جواب دیا کہ بس قدم بوسی اور آپ کے دیدار کے لئے حاضر ہوا تھا۔
درویش مرشد پر چوہے کی اصلیت منکشف ہو چکی تھی اس لئے مرشد نے فوراً ہی پھونک ما کر شیر کو واپس چوہے میں تبدیل کر کے اس کی اوقات یاد کروا دی اور یہ شعر بھی پڑھا
نیچاں دی آشنائی کولوں فیض کسے نئیں پایا
کیکر تے انگور چڑھایا ہر گچّھہ زخمایا
اس قصے کا حاصل سبق یہی ہے کہ جس مرشد کی نگاہ چوہے کو شیر بناسکتی ہے اسی مرشد کی نگاہ شیرکو دوبارہ چوہا بھی بنا سکتی ہے ۔