پیرا 66 کیوں لکھا گیا؟
شمشاد مانگٹ
اقتدار سے بے دخلی کے بعد جنرل پرویز مشرف کے حق میں تقریباً 12سال بعد عوام کے اندر ہمدردی کی شدید لہروں نے جنم لیا ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے حامی بھی اور انکے بدترین مخالف بھی خصوصی عدالت کے فیصلے پر سراپا احتجاج ہیں۔ وکلاءتحریک کے بعد جنرل پرویز مشرف نفرت کی دلدل میں اترتے چلے گئے لیکن جسٹس وقار سیٹھ کے فیصلے نے انہیں اس دلدل سے نکالنے میں کافی مدد دی ہے اور شاید اسی لئے چوہدری اعتزاز احسن جیسے معتبر وکیل نے بھی کہا ہے کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ ایک طرح سے جنرل (ر) پرویز مشرف کے حق میں چلا گیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں بڑے بڑے عجیب و غریب آئینی اور غیر آئینی کام ہو چکے ہیں اور خصوصی عدالت کا حالیہ فیصلہ اس لحاظ سے بالکل اسی طرح ہے جیسے پاکستان کے کرکٹر عابد علی نے ون ڈے کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی اپنے پہلے ہی میچ میں سنچری بنا کر پاکستان کا پہلا بیٹسمین ہونے کا اعزاز اپنے نام کر لیا ہے۔ جسٹس وقار سیٹھ عدالتی تاریخ کے ایسے جج کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جو ایک فوجی جنرل کےخلاف ماورائے آئین اقدامات کرنے پر مقدمہ کی سماعت کر رہے تھے اور خود بھی ماورائے آئین فیصلہ کر گئے۔یہ بھی ایک منفرد ریکارڈ ہے۔
خصوصی عدالت کے فیصلے پر آئینی وقانونی ماہرین سر پکڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ ایک ایسی سزا جس کا آئین میں ذکر ہی نہیں ہے ایک معزز جج نے کیونکر اپنے فیصلے میں تجویز کی ہے؟ آئین و قانون پر دسترس رکھنے والے دماغ زور دے رہے ہیں کہ جسٹس وقار سیٹھ کا دماغی معائنہ کروایا جائے جبکہ وفاقی حکومت نے جسٹس وقار سیٹھ کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں لے جانے کا اعلان کر دیا ہے جہاں پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ کا کیس پہلے ہی زیر سماعت ہے۔
اصولی طور پر تو اب ایک اور خصوصی عدالت کی تشکیل ہونی چاہئے جو جنرل پرویز مشرف کے معاملے کو بھی غیر جانبداری کے ساتھ غصہ تھوک کر دیکھے اور ماورائے آئین فیصلہ دینے پر جسٹس وقار سیٹھ کے کنڈکٹ کا بھی جائزہ لے ۔کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ڈی چوک زیادہ ”قربانی“ مانگ رہا ہو اور اس طرح معتبر اداروں کو اپنا ماضی یاد رکھنے کا زیادہ اچھا موقع ملے گا۔ عدالتوں کو مولوی تمیز الدین سے لیکر جسٹس مولوی مشتاق اور پھر جسٹس ارشاد حسن کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کیلئے جرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی صفوں پر نظر دوڑانی ہو گی۔
جنرل پرویز مشرف کے 3نومبر 2007ءکے اقدام پر اگر ملزم کی خواہش پر انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کوئی بھی فیصلہ آتا تو زیرو کو ہیرو بننے کا موقع نہ ملتا ۔لیکن جسٹس وقار سیٹھ نے کالے گاون کی کالک کو عدلیہ کے چہرے تک پہنچا کر ایک دفعہ پھر انصاف فراہم کرنے والے ادارے پر کئی سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کےخلاف سنائی گئی سزا کے باعث سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور پھر پرنٹ میڈیا پر حد سے زیادہ جو تنقید ہو رہی ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں نہ تو کوئی توہین عدالت کا قانون ہے اور نہ ہی اس جرم کی سزا ہے۔
اس کی بنیادی وجہ خود عدالت بنی ہے اور جہاں تک جھوٹے گواہوں کو شکار کرنے والے ریٹائرڈ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا تعلق ہے تو وہ تو اترکے ساتھ اس فیصلے سے جڑے اپنے تعلق پر جھوٹ بولے چلے جارہے ہیں۔ خصوصی عدالت کے فیصلے سے پہلے جلسہ عام میں مکے لہراتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کی نقل کی اور کہا کہ عدالت اس کے خلاف فیصلہ سنانے جارہی ہے۔
اس کے بعد خصوصی عدالت کا مختصر فیصلہ آتے ہی ریٹائرڈ چیف جسٹس نے پریس ایسو سی ایشن سے طویل ترین نشست کی اور اپنے ”زریں “خیالات میڈیا کے نمائندوں تک پہنچائے۔ اس نشست میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں ایک کام جو نہیں کر سکا وہ یہ ہے کہ میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ازسر نوٹرائل کرکے عدلیہ کے دامن پر لگا داغ دھونا چاہتا تھا جوکہ میں نہیں کر سکا۔
اس نشست میں ریٹائرڈ چیف جسٹس نے جو کچھ کہا کہ وہ اب آن دی ریکارڈ ہے۔ خصوصی عدالت کے ایک جج نے ماورائے آئین فیصلہ تحریر کرکے ایک طرف جنرل پرویز مشرف کو ہیرو بننے کا موقع دیا بلکہ صرف پوری فوج اور حکومت انکے ساتھ آ کھڑی ہوئی اور سینیئر وکلاءبھی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے نظر آئے جبکہ دوسری طرف اس فیصلے نے جانے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا دامن بھی داغدار کر دیا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی خواہش تھی کہ وہ متعدل مزاج بہترین منصف کے طور پر ریٹائر ہوں ۔اس لئے انہوں نے ازخود نوٹسز نہ لینے کا روزہ بھی رکھا ہوا تھا ۔لیکن خصوصی عدالت کے پیرا 66نے انہیں ایک غیر آئینی فیصلے کا پشت پناہ بنا کر رکھ دیا ہے۔جنرل پرویز مشرف کو جو حوصلہ عوام، حکومت اور فوج کی طرف سے ملا ہے عین ممکن ہے کہ وہ اپنا مقدمہ لڑنے اب وہیل چیئر پر پاکستان ہی آجائیں اور وہیل چیئر پر اگر سابق آرمی چیف انصاف مانگنے خود آگئے تو پھر عدالت کو انصاف دینا ہی پڑے گا۔
خصوصی عدالت کا فیصلہ کیسے ہوا اور پیراگراف 66 کیوں لکھا گیا؟ یہ اب راز نہیں ہے۔عوام کو اب علم ہے کہ چولی کے پیچھے کیا ہے۔ماضی میں یہ بہت سیکرٹ ہوا کرتا تھا،جس طرح چوہدری اعتزاز احسن سکھوں کی فہرست راجیو گاندھی کو فراہم کرنے کے الزام سے آج تک بری الذمہ نہیں ہو پائے ۔اسی طرح جسٹس(ر) آصف سعید کھوسہ بھی شاید پیرا66 کی پشت پناہی کے الزام سے کبھی بری نہ ہو سکیں۔