ہم رہ گئے ہمارے زمانے گزر گئے
حسن نثار
رات پگھل پگھل کر میری گنہگار آنکھوں سے ٹپکتی رہی۔شریکِ حیات سے بہتر کون جانتا ہے کہ اس کے جیون ساتھی کی اوقات کیا ہے اور وہ بطور بیٹا، باپ، شوہر، بھائی، دوست، پڑوسی، شہری وغیرہ کیسا ہے؟ زندگی میں اس کی ترجیحات کیا ہیں؟ اسے کن باتوں میں سکھ اور کن میں دکھ محسوس ہوتا ہے؟ کن لوگوں سے مل کر خوش یا اداس ہوتا ہے؟ کب تنہائی، کب پڑھائی، کب لکھائی اور کب مجلس آرائی؟
پس منظر شیئر کرنا ضروری ہے۔ ’’بیلی پور‘‘ کی ہانسی حویلی سے موجودہ نیم شہری رہائش گاہ تک میں محاورتاً نہیں حقیقتاً کرایہ دار کے طور پر رہتا ہوں۔ 1981ء میں پہلا گھر بنایا تو نہ وہ میرا تھا نہ بعد کا کوئی گھر۔ ’’بیلی پور‘‘ میں فرسٹ فلور سے گراؤنڈ فلور پر بہت کم گیا اور اس گھر میں بیسمنٹ سے گراؤنڈ فلور پر گئے مہینے بیت گئے۔
شام کے لگ بھگ چائے پر سب اکٹھے ہوتے ہیں اور پھر وہی معمولات۔ کوئی ضروری بات ہو تو گھر والے فون، انٹرکام پر کر لیتے ہیں۔ام حاتم کا فون آیا۔ دولفظی سوال تھا ’’فارغ ہیں؟‘‘ جواب بھی دو لفظی ہی تھا ’’آ جائیں‘‘۔ آتے ہی فون آگے کر دیا جس پر کسی خاصی عمررسیدہ خاتون کا انٹرویو چل رہا تھا۔ میں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا …..
’’پہچانا نہیں، یہ آپ کے زمانے کی ایک سپر سٹار ہے‘‘ پھر سے غور کیا اور کچھ دیر بعد جھجکتے ہوئے پوچھا___’’یہ نمی تو نہیں؟‘‘ وہ واقعی نمی تھی جو 80سے کچھ اوپر کی ہونے کے سبب پہچانی نہیں جا رہی تھی۔
اس انٹرویو کے بعد سے اب تک میں مسلسل سوچ رہا ہوں کہ لوگ لمبی عمروں کے لئے لمبی لمبی دعائیں کیوں مانگتے ہیں۔ خصوصاً مارلن منرو اور مدھو بالا جیسے خوبصورت چہرے جو جوانی میں ہی مٹی کی چادریں اوڑھ لیتے ہیں، ٹھیک کرتے ہیں۔ تب عربی کا وہ معروف محاورہ یاد آیا کہ ہر کوئی لمبی عمر تو مانگتا ہے لیکن بڑھاپا کسی کو پسند نہیں۔
دھیان میرا برصغیر کے عظیم ترین فنکار دلیپ کمار کی طرف جا نکلا جنہیں جذبات، احساسات اور چہرے کے تاثرات پر مکمل عبور حاصل تھا، آواز کے اتار چڑھاؤ سے لے کر باڈی لینگوئج تک مکمل کمانڈ۔ پشاور کے یوسف خان المعروف دلیپ کمار اب بانوے ترانوے کے ہوں گے۔ سال ڈیڑھ سال قبل انہیں ٹی وی پر دیکھا تو ڈپریشن میں ڈوب گیا۔ ’’باڈی‘‘ کو دو لوگوں نے سہارا دے رکھا تھا اور وہ چہرہ جس کے تاثرات کی اک دنیا دیوانی تھی ____ ہر قسم کے تاثرات سے یکسر عاری تھا۔
چہرہ کیا تھا اک صحرا تھا اور بولتی ہوئی آنکھیں بجھی ہوئی شمعیں تھیں اور وہ شخص جس کا ہیئر سٹائل برسوں برصغیر میں کریز رہا، بالوں سے تقریباً محروم تھا۔نمی نے ’’برسات‘‘ سے کیریئر کا آغاز اور ’’آن‘‘ میں ساتویں آسمان پر جا پہنچی اور پھر آن کی آن میں عشرے بیت گئے اور اسے پہچان لینا آسان نہ رہا۔
اصل نام نواب بانو تھا جس نے رضا نامی رائٹر سے شادی کی اور انٹرویو میں جیسے اسے یاد کیا، بیان نہیں ہو سکتا۔ وہ جس کے گرد سینکڑوں منڈلایا کرتے تھے بار بار انٹرویو کرنے والی لڑکی سے کہہ رہی تھی____
’’تم کبھی کبھی ضرور آ جایا کرنا‘‘۔ یہ نمی نہیں اس کی تنہائی کی اپیل تھی۔مدھو بالا نے کروڑوں کو سالوں سحر زدہ اور مبہوت کئے رکھا۔ ’’بسنت‘‘ سے 9سال کی عمر میں بطور چائلڈ اسٹار سفر شروع کیا۔ ٹین ایج میں ’’نیل کمل‘‘ کی ہیروئن بنی۔
22سالہ کیریئر میں قیامتیں بپا کرتے ہوئے چالیس سال سے بھی کم عمر میں ناآسودہ زندگی سے نجات پا گئی۔ اس کے دل میں پیدائشی طور پر ایک سوراخ تھا اور زندگی میں بیشمار سوراخ جن سے سدا لہو رستا رہا لیکن وہ اس خطہ کے سینما کو ’’مغل اعظم‘‘ ، ’’محل‘‘، ’’امر‘‘، ’’مسٹر اینڈ مسز 55‘‘، ’’ترانہ‘‘، ’’جوالا‘‘، ’’سنگدل‘‘ اور ’’برسات کی رات‘‘ جیسے جانے کتنے شہکار دان کر گئی۔
نمی کا انٹرویو دیکھنے کے بعد میں نے سب کچھ کینسل کر کے رات گئے تک صرف پرانے گیت دیکھنے اور سننے کا فیصلہ کیا کہ میرے لئے یہ کسی تھیرپی سے کم نہیں۔ اداسی کا علاج بے تحاشا اداسی ہے۔دلیپ کمار، مدھو بالا، فلم شاید ’’امر‘‘ تھی۔ آواز لتامنگیشکر’’تیرے صدقے بلم نہ کر کوئی غمیہ جہاں یہ سماں پھر کہاں‘‘پھر دلیپ کمار مدھو بالا، فلم کا نام یاد نہیں، آواز طلعت محمود’’یہ ہوا یہ رات یہ چاندنیتیری اک ادا یہ نثار ہےمجھے کیوں نہ ہو تری آرزوتری جستجو میں بہار ہے‘‘دلیپ ، مدھو بالا فلم شاید ’’ترانہ‘‘’’ایک میں ہوں ایک میری بے بسی کی شام ہے
‘‘صبیحہ سنتوش فلم ’’مکھڑا‘‘ آواز منیر حسین’’دلا ٹھہر جا یار دا نظارہ لین دے‘‘سنتوش، مسرت نذیر فلم ’’پتن‘‘’’بیڑی دتی ٹھیل اوئےمقدراں دا کھیل اوئےرب نے کرایا ساڈا پتناں تے میل اوئے‘‘فلم جٹی، پکچرائز ہوا مسرت نذیر پر’’میری چنی دیاں ریشمی تنداں‘‘فلم ’’یکے والی‘‘ (مسرت نذیر)’’کلی سواری بھئی بھاٹی لوہاری بھئی‘‘درپن،مسرت نذیر ،فلم ’’گلفام‘‘ آواز سلیم رضا’’یہ ناز یہ انداز یہ جادویہ ادائیں‘‘سدھیر، بہار، لیلیٰ فلم ’’کرتار سنگھ ‘‘، آواز نسیم بیگم’’نی ویر میرا گھوڑی چڑھیا‘‘اب ویر گھوڑی نہیں قسطوں والی کار پہ چڑھنا پسند کرتے ہیں اور ’’باگ پھڑائی‘‘ تو باگوں والی گھوڑی کے ساتھ ہی رخصت ہو گئی۔
’’دلاں دیاں میلیاں نیں چن جیاں صورتاںاینہاں کولوں چنگیاں نیں مٹی دیاں مورتاں‘‘ہیرو تھا اسلم پرویز اور فلم تھی ’’مٹی دیاں مورتاں‘‘گلورکارہ تھیں منور سلطان۔ موسیقی صفدر حسین، شاعری بابا عالم سیاہ پوش اور فلم تھی ’’ہیر‘‘ جو 55ء میں ریلیز ہوئی۔
’’بدل نوں ہتھ لاواںتے اڈی اڈی جاواں…ہوا دے نال‘‘اور پاکستان بننے کے صرف دو سال بعد 1949ء کی ’’پھیرے‘‘ آواز پھر منور سلطانہ جبکہ شاعری و موسیقی بابا چشتی۔’’مینوں رب دی سونہہ تیرے نال پیار ہو گیاوے چناں سچی مچی، وے چناں سچی مچی‘‘میں حاتم اور ہاشم سے اکثر کہتا ہوں کہ ’’بیٹا! 65، 70سال پرانا پاکستان، کلچر، رشتے، شہر اور رستے دیکھنے ہوں تو پرانی موویز دیکھا کرو۔
خوبصورتی، سادگی، برجستگی اور بے ساختگی رخصت ہو گئی، کسی کو مانگی تانگی لنڈے کی ٹیکنالوجی کھا گئی، کسی کو تصنع، بناوٹ، ملمع سازی ہڑپ کر گئی، رشتوں کو ’’پی آر‘‘ نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیاباقی بچی مکروہ سیاست اور نیم مردہ معیشت۔ شکر ہے کسی نے کیا ڈی جی آئی ایس پی آر نے سچ اور صحیح بتایا کہ معیشت ٹھیک ہونے میں پانچ دس سال لگیں گے
(بشکریہ جنگ)