آیت اللہ علی خامنائی اور ناز شاہ کا ایوارڈ

0

حامد میر

دریائے پونچھ کے کنارے واقع اس خوبصورت گاوں کا نام مدارپور تھا۔ ہجیرہ سے تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ کی طرف جاتے ہوئے لائن آف کنٹرول کے قریب اس گاوں کے مکین کئی دنوں سے اپنے گھروں میں محصور ہیں کیونکہ بھارتی فوج اس گاوں کی آبادی کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے۔ اس علاقے میں زیادہ اونچے پہاڑ نہیں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھارتی فوج کے مورچے ہیں جبکہ مدارپور نیچے وادی میں ہے۔

بھارتی فوجی اکثر اوقات گاؤں والوں کی مرغیوں اور بکریوں پر بھی نشانے لگاتے ہیں لیکن پانچ اگست کے بعد سے وہ انسانوں پر نشانے لگا رہے ہیں۔ اس گاؤں کے قریب درختوں کی اوٹ میں علاقے کے ایک بزرگ نے مجھے بتایا کہ ہم نے 1947میں اپنے زورِ بازو سے پونچھ کے اس علاقے کو آزادی دلوائی تھی، ہم سرینگر کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن بھارت کا مکار وزیراعظم پنڈت نہرو اقوام متحدہ میں پہنچ گیا اور اس نے سیز فائر کرا دیا۔

یہ سیز فائر لائن بعد میں کنٹرول لائن بن گئی اور بھارت اس کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنانا چاہتا ہے لیکن ہم کشمیر کی تقسیم نہیں مانیں گے، ہم بہت جلد اس کنٹرول لائن کو روند دیں گے۔ قریب کھڑے نوجوانوں نے اپنے اس بزرگ کی فوری تائید کی اور کہا کہ ہم پر روزانہ فائرنگ کا مقصد یہ ہے کہ ہم خوفزدہ ہو کر اپنا علاقہ چھوڑ دیں لیکن ہم اپنے گھر اور کھیت چھوڑ کر فرار ہونے کے بجائے کنٹرول لائن کو پار کرنے کی کوشش کریں گے۔

بزرگ نے کہا کہ تتہ پانی کے قریب ایک گاؤں درہ شیر خان میں بھارتی فوج نے شادی کی ایک تقریب میں فائرنگ کی اور میرا ایک پرانا دوست لال محمد شہید ہو گیا جس کی عمر اسی برس سے بھی زیادہ تھی، کیا دنیا کو نظر نہیں آتا کہ بھارتی فوج شادیوں پر حملے کر رہی ہے؟ یہ سن کر میں نے پوچھا کہ درہ شیر خان کتنی دور ہے؟ بزرگ نے بتایا کہ کم از کم ایک گھنٹے کی ڈرائیو ہے لیکن وہاں پہنچنا مشکل ہے کیونکہ اس گاؤں کے لوگ بھی مدارپور والوں کی طرح گھروں میں محصور ہیں اور بھارتی فوج گھر سے باہر نکلنے والوں پر گولیاں چلاتی ہے۔

بزرگ نے کہا درہ شیر خان کے قریب سہڑہ میں بھارتی فوج نے ایک گرلز کالج اور چھوٹے ہاسپٹل پر گولے برسائے ہیں، آپ وہاں چلے جائیں۔ میں نے سہڑہ کا راستہ سمجھا اور اجازت لی تو بزرگ نے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ نریندر مودی کو متحدہ عرب امارات کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا جائے گا؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو بزرگ نے کہا کہ ہم اس ایوارڈ کو کبھی نہیں بھولیں گے، جب ہم لاشیں اٹھا رہے ہیں تو ہمارے قاتل کو ایوارڈ دیا جارہا ہے۔

تھوڑی دیر کے بعد میں دریائے پونچھ کے کنارے پر سفر کرتا ہوا ایک تنگ پل عبور کر کے سہڑہ پہنچا تو درہ شیر خان کے اسی سالہ بزرگ لال محمد کے خاندان سے ملاقات ہوئی جو کچھ زخمی بچوں کو لے کر سہڑہ آئے تھے تاکہ ان کی مرہم پٹی کی جا سکے۔ یہ چھوٹے چھوٹے بچے ایک گھر کے قریب گولہ پھٹنے سے زخمی ہوئے تھے اور جس بنیادی صحت مرکز میں انہیں مرہم پٹی کے لئے لایا گیا اس پر بھی ایک دن پہلے گولہ مارا جا چکا تھا۔

ان بچوں کے باپ نے مجھے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھی اپنے گھروں میں قیدی ہیں اور ہم بھی اپنے گھروں میں قیدی ہیں۔ وہ بھی لاشیں اٹھا رہے ہیں، ہم بھی لاشیں اٹھا رہے ہیں، ان کے بچے بھی اسکولوں میں نہیں جا رہے ہیں، ہمارے بچوں کے اسکول بھی بند ہیں۔ لائن آف کنٹرول کے آس پاس صرف اسکول کالج نہیں اکثر کاروباری مراکز بھی بند رہتے ہیں لیکن ہم یہاں سے نہیں بھاگیں گے ہم لڑیں گے۔

ادھر ایک ہجوم اکٹھا ہو چکا تھا۔ ایک خوبصورت نوجوان نے مجھے مخاطب کیا اور کہا: ایک بات پوچھنا تھی۔ مجھے گورنمنٹ گرلز کالج سہڑہ پہنچنے کی جلدی تھی جہاں بھارتی فوج نے گولہ مارا تھا۔ میں نے مسکرا کر نوجوان سے کہا کہ میں ذرا جلدی میں ہوں، وہ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا اور کہا کہ آپ نے ایران کے رہبر آیت اللہ علی خامنائی کا بیان دیکھا ہے جنہوں نے اس مشکل وقت میں ہم کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں ان کے ٹویٹ پر تو بھارتی میڈیا میں بڑا ماتم ہو رہا ہے۔

نوجوان نے کہا کہ ہمارے قاتل مودی کو متحدہ عرب امارات میں ایوارڈ دیا جا رہا ہے، کیا پاکستان کی حکومت ہمارے محسن آیت اللہ علی خامنہ ای کو پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دے گی؟ یہ سن کر میں اچانک رک گیا۔ غور سے اس نوجوان کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ اس سوال کا کیا جواب ہے؟ مجھے کوئی جواب نہ سوجھا۔ میں اس نوجوان کے ساتھ کوئی غلط بیانی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔

سہڑہ کے گرلز کالج پر ہونے والی بمباری دیکھ کر میں مقامی لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوا اپنی گاڑی میں بیٹھ رہا تھا۔ مجھے اسلام آباد پہنچنے کی جلدی تھی تاکہ لائن آف کنٹرول کی صورتحال ’’جیو نیوز‘‘ کے ذریعہ پوری دنیا تک پہنچ سکے۔ گاڑی میں بیٹھا تو علی خامنائی کے بارے میں سوال پوچھنے والا کشمیری نوجوان پھر سامنے آکھڑا ہوا اور کہنے لگا چلو علی خامنائی کو نہیں ہماری بہن ناز شاہ کو ایوارڈ دے دو جس نے مودی کو ایوارڈ دینے والوں کو ایک احتجاجی خط تو لکھ دیا۔ میں نے اس نوجوان سے کہا کہ میرے اختیار میں ہو تو آیت اللہ علی خامنائی اور ناز شاہ دونوں کو ایوارڈ دے دوں۔

یقین کیجئے کہ اس نوجوان نے مجھے بہت مغموم کردیا۔ میں کوٹلی کے راستے اسلام آباد واپس آتے ہوئے طفیل ہوشیار پوری کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ان کا ایک سدا بہار ترانہ آج بھی کشمیریوں کی زبان پر ہے ’’اے مرد مجاہد جاگ ذرا، اب وقت شہاد ت ہے آیا‘‘۔ طفیل ہوشیاری پوری نے ایک دفعہ کہا تھا؎

اے بگڑی ہوئی قسمت کے خداو

مجھ سے سرِ محفل ذرا نظریں تو ملاو

سچ کہنا کہ عقدہ کوئی آساں بھی کیا ہے؟

ملت کے کسی درد کا درماں بھی کیا ہے؟

رخ پھر نہ سکا گردشِ تقدیر کا اب تک

حل ہو نہ سکا مسئلہ کشمیر کا اب تک

دنیا بھر کے کشمیری اپنے کچھ بھائیوں کے ہاتھوں اپنے قاتل کی پذیرائی پر بہت دکھی ہیں۔ کشمیری پہلے بھی جانیں دیتے رہے، آئندہ بھی جانیں دیں گے لیکن وہ پوچھ رہے ہیں کہ جب وہ لاشیں اٹھا رہے ہیں تو ان کے حق میں آواز اٹھانے والے آیت اللہ علی خامنائی کو پاکستان کی طرف سے ویسا ایوارڈ مل سکتا ہے جیسا ایوارڈ بھائیوں نے مودی کو دیا؟

(بشکریہ جنگ)

Leave A Reply

Your email address will not be published.