سلامتی کونسل سےزیادہ توقعات نہ رکھیں
محبوب الر حمان تنولی
مسلہ کشمیر کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ اس تنازعہ کو ایک بار پھر عالمی سطح پر حل طلب تسلیم کیا گیا ہے اور بھارت نے مختلف حربوں ،حیلے بہانوں سے اسے دو طرفہ بنا دیا تھا اسی تنازعہ کو خود اپنے اقدام کے زریعے پھر عالمی فورم تک پہنچانے کا مو قع فراہم کیا ہے۔
بھارت نے ایسے ہی کشمیر میں اکثریتی آبادی کو نظر انداز کر کے جب مہاراجہ کے ساتھ الحاق کی غیر قانونی اور غیر اخلاقی ڈیل کی تھی تو کشمیر کی عوام بالکل اسی طرح اٹھ کھڑی ہوئی تھی جس طرح اب احتجاج کر رہے ہیں۔
بھارت نے صورتحال کا فائدہ اٹھا کر اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں پھر پاکستان اور انڈیا کے درمیان باقاعدہ جنگ چِھڑ گئی۔اس وقت کے انڈین وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اس معاملے کو سلامتی کونسل کے سامنے لے گئے۔ کونسل نے دونوں ممالک کو سیز فائر کا حکم دیتے ہوئے کشمیر سے فوجیں نکالنے کا کہا۔
سلامتی کونسل کے حکم پر بھارت نے سری نگر سے تو فوج نکال لی لیکن کشمیر سے نہ نکلیں، اس کے بعد چار سال تک استصوب رائے سے متعلق قراردادوں پر سلامتی کونسل میں بحث جاری رہی کہ کیسے اور کس طرح رائے شماری کرائی جائے۔
دس سال تک بھارت سلامتی کونسل میں اپناہے گیے موقف پر قاہم رہا، اس دوران جواہر لعل نہرو مختلف فورمز پر، پریس کانفرنسوں میں اور کانگریس کمیٹی میں بار بار استصواب راہے کا وعدہ پورا کرنے اورکشمیریوں کو فیصلے کا حق دینے پرقاہم۔ رہا۔
وقت گزرنے،حکمران بدلنے اور بھارت کی اقتصادی صورتحال میں بہتری آنے پر بھارت استصواب رائے کے وعدے سے مکر گیا،سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو بھی بو سیدہ قرار دے دیا، پہلے شملہ معاہدے اور بعد میں اعلان لاہور کے نام پر شاطرانہ انداز اپنایا اور مسلہ کشمیر کو دو طرفہ کہنا شروع کر دیا۔
بھارت میں کرپشن کے الزامات حکمرانوں پر لگتے رہے عسکری قیادت بھی دفاعی سودوں میں کیک بیک اور کمیشن میں ملوث رہی مگر انڈیا نے اپنی معیشت کو گرنے نہیں دیا اور مضبوط کرتے چلے گیے اس کے برعکس پاکستان میں جس کو اقتدار ملا بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتا اور ملک کو دلدل میں دھنساتا رہا۔
آج اگر بھارت کا غرور آسمان پر اور معیشت مضبوط ہے تو اسی لیے ان کے لہجوں میں رعونت بھی ہے،اس کے برعکس پاکستان آج بھی کشکول لیے دنیا بھر میں پھر رہا ہے اسی لیے دفاعی پوزیشن میں کھڑا ہے اور ایک بار پھر اس سلامتی کونسل سے امید لگاہے بیٹھا ہے جس نے کبھی کمزوروں کی مدد نہیں کی ہمیشہ طاقتوروں کی سیڑھی بنی ہے۔
اگر آج پاکستان معاشی جال میں نہ پھنسا ہوتا تو بھارتی فوج اس کے نر غے میں آہی ہوہی ہے، مقبوضہ کشمیر میں فوج اتار دیں یا جہادی تنظیموں کو گرین سگنل دے دیں تو 9لاکھ فوج کشمیر میں محصور ہو کرشکست سے دو چار ہو سکتی ہے کیونکہ مقامی آبادی بھی اس کے خلاف اور اسے گراونڈ سے مدد ملنے کا امکان نہیں ہے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس سے زیادہ توقعات وابستہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے، مسلہ عالمی فورم میں آگیا ہے یہی بھارت کے لیے بری خبر ہے، کشمیر کا کرفیو اٹھتے ہی بھارت کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا، طاقت کے استعمال پر دنیا کسی نہ کسی طرح خاموشی توڑے گی اور ٹرمپ یا کسی اور کی ثالثی ماننے کے علاوہ بھارت کے پاس مشکلات کم کرنے کا راستہ نہیں ہو گا۔
سلامتی کونسل میں پانچ ممالک کی اجارہ داری اور اوپر سے ویٹو کا غیر مساوی حربہ ہمیشہ مساہل سلجھانے کی بجاہے الجھانے کا سبب بناہے اسی لیے سلامتی کونسل کی بیسیوں قراردادیں عملدرآمد نہ ہونے کے باعث الماریوں کی زینت بنی ہو ہی ہیں۔
پانچ ممالک میں شاہ محمود قریشی کہتے ہیں چین ہمارے ساتھ ہے، روس نے بظاہر مخالفانہ رویہ نہیں اپنایا لیکن پاکستان کو حمایت ملنے کا دعوی نہیں کیا جا سکتا، برطانیہ تاریخ کا چشم دید گواہ ہے وہ ساتھ دے سکتا ہے، امریکہ کو پاکستان سے افغانستان میں کام نکلوانا ہے اس لیے وہ کھل کر شاید ہماری مخالفت نہ کرے، فرانس سےتوقع نہیں رکھی جا سکتی۔
ابھی تو خود سلامتی کونسل نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس پر بند کمرے میں اجلاس کرے درخواست پر کمیٹی بناہے، کوہی اعلامیہ جاری کرے یا پھر ایک اورقرارداد پیش ہو۔ لیکن ان تمام آپشنز کے باوجود ہمیں زیادہ توقعات نہیں رکھنی چاءہیں، ہاں یہ ہو گا بڑی طاقتوں کے جھکاو کا اندازہ ہوجاہے گا اور مسلہ عالمی فورم پر آجانے سے بھارت دفاعی پوزیشن پر آ جاہے گا۔
ہاں ایک امکان یہ بھی ہے کہ سلامتی کونسل کی طرف سے کوئی بیان سامنے آسکتا ہے جس میں دونوں ممالک کو کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس صورتحال میں تحمل کا مظاہر کرتے ہوئے مذاکرات کریں اور کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔اور اگر کھلی بحث ہوہی تو اجلاس کافی دن چلے گا۔
’