انڈین سول سوسائٹی
آمنہ مفتی
کشمیر کا مسئلہ جو بہتر برسوں سے بر صغیر کے سینے میں ایک ناسور کی طرح پک رہا تھا آخر کار مودی سرکار نے اس میں خنجر گھونپ دیا۔ پوری وادی دنیا سے کٹی ہوئی ہے ،آج چاند رات ہے۔
بہتر سال پہلے کی ایک عید الفطر جو سنی سنائی ہے یاد آ جاتی ہے اور دل مزید بھاری ہو جاتا ہے۔ آزادی ایک ایسا خوش رنگ پرندہ ہے جس کا ذکر ہم بر صغیر والوں نے صرف سنا ہی سنا ہے۔
بہتر سال پہلے آزادی کے نام پہ ہمیں ذبح کر کے رکھ دیا گیا اور آزادی کسے ملی؟ اسی سٹیٹس کو کو جو پہلے بھی انگریز کے ساتھ مفاہمت کر کے عیش لوٹ رہا تھا۔
سرحد کے اِدھر اور ادھر، انسان نہ کل آزاد تھا نہ آ ج آزاد ہے۔ وہی غربت، وہی بے روزگاری وہی بھوک وہی بیماری۔ مودی سرکار نے مسلمانوں اور دلتوں پہ زندگی پہلے ہی تنگ کر رکھی تھی اب کشمیر کا محاذ چھیڑ کر ثابت کر دیا کہ وہ صرف سیاستدان ہیں، انسان نہیں۔
چھوٹا منہ بڑی بات، لیکن آخر ایسا کون سا خوف تھا جو اندرا گاندھی جیسی دبنگ عورت کو بھی آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرنے سے روکے ہو ئے تھا اور مودی اچانک اس خوف سے بری ہو گیا؟
تاریخ کے بلیک باکس میں بہت سی باتیں ریکارڈ ہوتی رہتی ہیں جو چاہے صدیاں گزر جائیں، سامنے آ کر رہتی ہیں۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ آواز مرتی نہیں فقط سفر کرتے کرتے دور نکلتی جاتی ہے۔
پہلے بھارت کے زیر انتظام اور اب مقبوضہ کشمیر میں بلند ہو نے والے نعرے بھی وہیں گونج رہے ہیں۔ وادیوں میں آوازیں یوں بھی دیر تک گونجا کرتی ہیں۔
آزادی ملی تو ہم نے اپنے حصے کی بے دری، بے گھری، مہاجرت اور فسادات سہے۔ آزادی کے بعد بھی آزادی کے لیے چلاتے رہے لیکن کم سے کم ہمارے پاس ایک جھنڈا اور ایک ترانہ تو ہے۔ کشمیریوں سے یہ بھی چھین لیا گیا۔
سوا دکھ یہ ہے کہ انڈیا میں دنیا بھر کے سفارت خانے ہیں اور ان سفارت خانوں میں بیٹھے سفیر، اسی اطمینان سے مکھن توس کھاتے اور شام کی چائے اڑاتے ہیں اور کسی جگہ سے مذمت کی ایک آواز نہیں ابھرتی۔
انسانی آزادی کے سبھی داعی کسی ضروری کام سے کنبھ کرن کا روپ دھارے سو رہے ہیں۔ ہندوستان کے اندر سے آوازیں اٹھیں لیکن عالمی ضمیر جانے کس برمودا ٹرائی اینگل میں جا ڈوبا ہے کہ اس کی کوئی خبر نہیں۔
ایک شے ہوا کرتی تھی مسلم امہ، ہمیں تو دور دور تک وہ بھی نظر نہ آئی۔ آج حج ہے۔ تمام دنیا سے مسلمان مکہ مکرمہ جمع ہوں گے۔ کشمیر کے مسلمانوں کے لئے کیا وہاں سے کوئی آواز اٹھے گی؟
لداخ کی سرحد چین کے ساتھ لگتی ہے، کیا چین خاموش ہی رہے گا؟
یہ کرفیو کب تک قائم رہے گا؟ جو تحریک بہتر سال میں نہ دبائی جا سکی کیا وہ اب دبا لی جائے گی جبکہ آج شائد پہلی بار سارے کشمیری رہنما ایک ہی بات پہ متفق ہیں۔
اور ہاں کشمیر کے پڑوس میں پاکستان ہے جو مسئلہ کشمیر کا فریق بھی ہے۔ اس ملک کی پارلیمنٹ میں مودی سرکار کے اس اقدام پہ بات چیت کے لئے ایک مشترکہ اجلاس ہوا۔ جس میں حکومتی ارکان نے اپوزیشن کو اور اپوزیشن نے حکومتی ارکان کو چنیدہ گالیوں، سٹھنیوں اور طنزیہ اشعار سے نوازا۔ زرداری صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ آپ وہاں سے بھگائے ہوئے ہیں، بھگوڑے ہیں سندھ اور پنجاب نے آپ کو پناہ دی۔
اس رجز خوانی سے فراغت کے بعد، چند جذباتی تقریریں اور بھولی بھولی مذمتیں ہوئیں، وزیر اعظم نے کہا کہ کیا میں انڈیا پہ حملہ کر دوں۔
سپیکر صاحب نے سب گالیاں تو حذف کرا دیں لیکن، بھگوڑے کی گالی ویسے ہی رہنے دی۔ زرداری صاحب نے تاریخ کے جبر سے اپنی جان بچانے والوں کی نسلوں کو جو گالی دی وہ اس کارروائی میں جلی حروف سے لکھی قائم رہے گی۔
خیر، یہ ہیں کشمیر کے خیر خواہ، ان کا تو مذکور ہی کیا ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی کی ان پالیسیوں اور فیصلوں سے ہندوستان اور کشمیر کی نئی نسل ، جو دو قومی نظریے پہ اس طرح یقین نہیں رکھتی تھی، اب اس کے خیالات کیا ہوں گے ؟
آج عید قربان ہے۔ کشمیر میں کرفیو کی کیا صورت حال ہو گی؟ کیا یہ عید بھی کرفیو میں کٹے گی؟ عید قربان پہ ہندو مسلم فسادات کا یوں بھی خدشہ رہتا ہے اور آج جبکہ اپوزیشن اور مسلم اقلیت کشمیر کے سلسلے میں اٹھائے گئے مودی کے اقدامات پہ ناراض اور شدت پسند ہندو اکثریت مع حکومتی پارٹی بے حد پر جوش ہیں تو کسی بڑے انسانی المیے کا خوف ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مالکان پہ اچانک کرپشن ثابت ہوئی اور وہ کشمیر کو بھول بھال اپنی مصیبت میں گرفتار ہوئے۔
انڈیا میں ہمارے بھی کئی دوست ہیں جو کبھی کبھار ’امن کی آشا‘ الاپتے ادھر آ نکلتے تھے۔ مودی کے اس اقدام پہ ان میں سے کسی ایک نے بھی سوشل میڈیا پہ مذمت چھوڑ، ایک ہفتے سے کوئی نکتہ تک نہیں لگایا۔
مودی کا یہ اقدام کیا رنگ لائے گا وہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن کشمیریوں کے لئے حالات کسی بھی صورت میں اچھے نظر نہیں آ رہے۔ یا تو انہیں وادی سے جبری ہجرت پہ مجبور کیا جائے گا (جیسا کہ زرداری صاحب نے فرمایا بھگایا جائے گا) اور یا گھیٹوز میں رہنے پہ مجبور کر دیا جائے گا۔ یوں تو انڈیا پاکستان میں اکثر اقلیتیں اسی طرح رہتی ہیں مگر کشمیری مسلمان ایک اقلیت نہیں ہے۔ ہاں انھیں اقلیت بنانے کی کوشش ضرور جاری ہے۔
جبری ہجرت کی صورت میں ان کے پاس پاکستان آنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا ۔ کچھ ایسی ہی صورت حال بہاریوں کے لئے بن گئی تھی۔ خوبصورت باغوں اور مکئی کے کھیتوں کے مالک کیا کیمپوں میں رہنے پہ مجبور کر دیئے جائیں گے؟
اس وقت انڈین سول سوسائٹی، جی وہی بدنام زمانہ موم بتی مافیا ہی اس پاگل پن پہ آواز اٹھا سکتی ہے۔ ایس او ایس انڈین سول سوسائٹی۔(مصنفہ/ کالم نگار۔ ہم سب)