ایک شق ختم اور کشمیر پر قبضہ ؟
محبوب الرحمان تنولی
بھارت نے پانچ اگست کو کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں اقوام عالم کے منہ پر دے ماری ہیں، بھارتی وزیرداخلہ نے راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے شور شرابے کے دوران چیخ چیخ کر بتایا ہے اقوام متحدہ کس چڑیا کا نام ہے؟
ہم رکھتے ہیں جوتی کی نوک پر۔۔ اور پھر پلک چھپکتے میں متنازعہ خطہ کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کرتے ہوہے بھارتی آئین سے آرٹیکل370کو ایسے نکالا جیسے سکول کے بلیک بورڈ پر لکھی عبارت مٹا دی جاتی ہے۔
آج پوری دنیا نے دیکھااقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کی قانونی حثیت اور طاقت صرف افغانستان، عراق، سوڈان، ایران اور کمزور ممالک کے لیے ہے، طاقتور کے آگے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی بھیگی بلی بن گیے ہیں۔
انڈین آئین کی شق 370 ریاست جموں و کشمیر کو انڈین یونین میں خصوصی نیم خودمختار حیثیت دیتا تھا اور ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعظم شیخ عبداللہ اور انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی اس پر پانچ ماہ کی مشاورت کے بعد اسے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔
آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور انڈیا کے آئین کی جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں اس آرٹیکل کے تحت ان کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پر نہیں ہو سکتا تھا۔
اس کے تحت ریاست کو اپنا آئین بنانے، الگ پرچم رکھنے کا حق دیا گیا تھا جبکہ انڈیا کے صدر کے پاس ریاست کا آئین معطل کرنے کا حق بھی نہیں تھا۔مرکزی حکومت یا پارلیمان ریاست میں ریاستی حکومت کی توثیق کے بغیر انڈین قوانین کا اطلاق نہیں کر سکتی تھی۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی ریاست میں یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے تاہم آرٹیکل 370 کے تحت انڈین حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی صدارتی حکم کے تحت اس میں شامل کیا جانے والا آرٹیکل 35 اے بھی ختم ہو گیا ہے جس کے تحت ریاست کے باشندوں کی بطور مستقل باشندہ پہچان ہوتی تھی اور انھیں بطور مستقل شہری خصوصی حقوق ملتے تھے۔
خدشہ ہے کہ آئینِ ہند میں موجود یہ حفاظتی دیوار گرنے کے نتیجے میں کشمیری فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہو جائیں گے، کیونکہ غیر مسلم آبادکاروں کی کشمیر آمد کے نتیجے میں ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قبضہ ہو سکتا ہے۔
یہ خدشہ صرف کشمیر کے علیحدگی پسند حلقوں تک محدود نہیں بلکہ ہند نواز سیاسی حلقے بھی اس دفعہ کے بچاؤ میں پیش پیش رہے ہیں اور اب وہ بھی بھارتی اقدام کی مخالفت کر رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے دو سابق وزراہے اعلی محبوبہ مفتی اور عمرعبدللہ نظام کے سارے مزے لوٹ کر اب چیخ وپکار کرنے لگے ہیں محبوبہ مفتی نے پہلی بار سچ بولا اور گرفتار ہو گہی، عمر عبدللہ کو اب یاد آیا کہ بھارت نے کشمیریوں کو دھوکہ دیا ہے۔
تاریخ کے اس نازک موڑ پر پاکستان کے لیے امتحان کی گھڑی ہے ہم ہمیشہ کہتے تھے کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے آج بھارت کے ایک شاطرانہ پینترے نے صرف کشمیریوں اور پاکستان کو ہی نہیں پورے خطے کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔
ایک طرف کشمیری نوجوانوں، خواتین اور بوڑھوں کی زندگیوں کی پرواہ کیے بغیر یہ نعرہ بازی ہے۔ ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے اور دوسری جانب ہماری اقوام عالم میں ناپاہیدار دوستیاں ہیں، آگے بڑھیں اور پیچھے موڑ کر دیکھیں تو پیچھے ساتھ کوہی نہیں ہوتا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے چند دن قبل مسلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تھی آج جب آرٹیکل 370ختم ہوا تو واشنگٹن سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ بھارت کہتا ہے یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے لیکن جب صدام حسین کہتا تھا یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے تب آپ تھانیدار بن کرعراق پر چڑ دوڑے تھے آج اقوام متحدہ کی قراردادیں دفن ہوتے آپ کو نظر نہیں آتیں؟
اس مرتبہ بھی اگر امریکہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کا ساتھ نہ دے تو پاکستان کو افغانستان میں پھنسے امریکہ کی کوہی مدد نہیں کر نی چاہیے، یہ کیسی ثالثی ہے کہ آپ نے ایک مسلمہ بین الاقوامی معاہدے کو ختم ہوتے دیکھا اور خاموش تماشاہی بنے ہو ہے ہو۔
آج پاکستان، ایران یا کوہی اور چھوٹا ملک ایسا کرتا تو سلامتی کونسل ہنگامی اجلاس بلا کر پابندیاں لگا چکی ہوتی، اپنا فیصلہ دے چکی ہوتی لیکن ایک طاقتور ملک نے عالمی ضابطے کے ساتھ کھلواڑ کیا تو بڑی طاقتیں ردعمل دیتے بھی محتاط الفاظ ڈھونڈ رہی ہیں۔ ان سب کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
پاکستانی قوم امید کر رہی ہے آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اور کور کمانڈرز کانفرنس میں کیے گے فیصلے کشمیر یوں کو مایوس نہیں کریں گے، اس کشمیر کے لیے پاکستان نے تین جنگیں لڑیں ،ہزاروں شہادتیں ہوہیں بھارت صر ف ایک شق ختم کر کے کشمیر پر کیسے قبضہ کر سکتا ہے۔