! گھبرانا نہیں ہے
کپتان کی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو عام پاکستانیوں کی زندگیوں میں بہتری نام کی تو کوئی چیز نہیں لیکن حکومتی رویئے نے اپوزیشن رہنماؤں کی زندگیاں ضرور اجیرن بنا رکھی ہیں
موجودہ حکومت کے ایک سال پورے ہونے پر لوگ مہنگائی اور معاش کے ہاتھوں تنگی کا شکار ہورہے ہیں حالات کی ستم ظریفی کا سامنا کرنے والا پاکستان کا وہ غریب طبقہ جو کرپٹو کریسی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونیوالے عمران خان کی تبدیلی کا شکار تو ہو گیا لیکن اب وہی لوگ جو مسیحا سمجھ رہے تھے ملکی معاشی حالات دیکھ کر عمران خان کی کارکردگی سے ناخوش اور مایوسی میں ڈوبتے دکھائی دیتے ہیں ،،،
حکومتی حلقوں کی جانب سے تمام تر مسائل ،وسائل دلائل،فضائل پیش کرنے کے باوجود بھی دل ہے کہ مانتا نہیں ،،،،چونکہ ، مایوسی گناہ ہے اسی لئے عوام کو امید دلانے اور حوصلہ بڑھانے کا بندوبست کرتے رہنا چاہئیے اسی اصول کے تحت جناب وزیر اعظم جب بھی بولتے ہیں صرف سابقین کی “کارروائیوں “کو ملکی کی تباہی کا زمہ دار ہی نہیں ٹھہراتے بلکہ قوم کو آج کل یہ تسلی بھی دے رہے ہیں کہ
دیکھو میرے پاکستانیوں
چوروں سے جان چھڑاہیں گے
حالات ٹھیک ہو جائیں گے
لہذا “گھبرانا “نہیں ہے
مجھے ورلڈ کپ میچز کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز سےجڑا ایک لطیفہ یاد آرہا ہے جو کہ ورلڈ کپ کے دوران غیر تسلی بخش کارکردگی کے باوجود کھلاڑیوں کو ایک ہی تلقین کرتے دکھائی دیئے کہ “دھبلانا “نہیں ہے اور پھر ہمارا ایک کے بعد ایک کھلاڑی گھبراتا ہی چلا گیا ۔
بات چونکہ پاکستان کے کپتان کی ہو رہی ہے ان ملکی حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید معاملات کو سنبھالا دینا موجودہ حکومت کے بس کی بات نہیں تاہم جب وزیر اعظم قوم کو گھبرانا نہیں ہے کا مشورہ دیتے ہیں تو لوگوں کو نہ جانے کیوں گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے۔
ان حالات میں مستقبل کا سوچ کر اکاونٹ میں پڑی چند ہزار کی جمع پونجی میں تیزی سے ہونیوالی کمی میری طبعیت میں خود بخود گھبراہٹ پیدا کر دیتی ہے۔ یہ جگ بیتی تو پھر کبھی ،،،لیکن اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی آنکھ مچولی زوروں ہر ہے ۔۔اور ایوان بالا کوئی اکھاڑہ سا بنتا دکھائی دے رہا ہے ،،حکومت اور اپوزیشن کو سوچنا چاہئیے کہ یہ سلسلہ چل نکلا تو پھر قابل احترام ایوان کو بے آبرو ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔
حکومت جو تعداد میں تو کم لیکن جزبات ایسے کہ ایک لمحے کے لئے کوئی انہونی ہونے اور جیت کا گیت گانے کو بےتاب دکھائی دیتے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کی کرسی کی کشمکش میں اپوزیشن اتحاد اپنا ویننگ اسکور پورا کرنے کی دعویدار ہے پوری حکومتی مشینری ایک طرف اپویشن کو رام کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے جس میں میں حکومتی زعماءکو آنیوں جانیں کے سوا کچھ حاصل وصول نہیں ہوا ہے۔
دوسری جانب خود وزیر اعظم بھی چیئرمین سینیٹ کے معاملے پر انتہائی پھرتیوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف مخالفین کے خلاف زبان و بیان میں تلخی لا رہے ہیں۔ بلکہ ایوان بالا کی جنگ جیتنے کے لئے مخالفین سے دو دو ہاتھ کرنے کو مکمل تیار ہیں ،،،اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی اس دوڑ میں پتے تو اپوزیشن کو ہی شو کرنا پڑیں گے ۔
اس لئے نتائج کچھ بھی ہوں ،،تحریک عدم اعتماد کے بعد ڈرٹی پولیٹکس ایوان کا مقدر بن جائے گی تاہم سیاسی اور پارلیمانی لڑائی میں ایوان بالا کے سربراہ خود کو بچا پائیں گے یا نہیں،اس سارے معاملے میں صادق سنجرانی بھی بس چپ سادھے تماشہ اہل کرم دیکھ رہے ہیں
تاہم تصویر کا دوسرا رخ یعنی اپوزیشن کا حال دیکھیں تو فل جارہانہ انداز سیاست ،موقف اور فیصلے سے پیچھے نہ ہٹنے پر ڈٹ جانیوالی حزب اختلاف کی سیاست نے سینیٹ میں زبانی بھونچال برپا کر رکھا ہے۔
ریموول آف چیئرمین کی اس دوڑ میں وزیر اعظم کی باڈی لینگویج اور اطمینان بھی چاغی کے پہاڑ جیسا عزم اور حوصلہ رکھنے والے صادق سنجرانی کو یہی پیغام دے رہا ہے کہ مسٹر چیئرمین گھبرانا نہیں ہے۔