درندوں کی بستی میں فرشتوں کا کیا کام؟
سمیرا راجپوت
ایک باپ بیٹی کیسے پالتا ہے یہ باپ ہی جانتا ہے، خود بھوکا سو جائے بیٹی کو بھوکا سونے نہیں دیتا، خود چاہے تن پر کپڑا نہ ہو بیٹی کی ناموس کی حفاطت آخری دم تک کرتا ہے۔ باپ کا بس چلے تو بیٹی کی طرف اٹھنے والی ہر آنکھ نکال دے، اس کی طرف بڑھنے والا ہر ہاتھ کاٹ دے ۔
قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے گل نبی نے کبھی یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ جو فرشتہ اس کے گھر رحمت بن کے آئی، زمین کے شیطان اس کو نوچ ڈالیں گے۔ لیکن وقت کی ستم ظریفی جب فرشتہ گھر سے لاپتہ ہوئی تو باپ نے اسلام آباد کا کوئی گلی کوچہ نہ چھوڑا لیکن معصوم فرشتہ کہیں نہ ملی۔ مایوس باپ نے قانون کا دروازہ ہی کھٹکھٹانا تھا ۔
قانون کا دروازہ ؟ قانون تو ازل سے ابد تک سونے کے لیے نہیں بنا؟ لیکن معصوم باپ یہ کہاں جانتا تھا کہ اس ملک کی پولیس صرف امیروں کی مدد کرتی ہے۔ وہ تھانے گیا، دھڑکتے دل کے ساتھ منت سماجت کی صاحب مدد کیجیے، فرشتہ کھو گئی ہے ۔ دس سال کی فرشتہ گھر سے کھیلنے نکلی تھی۔ لیکن جواب آیا کہ کسی کے ساتھ بھاگ تو نہیں گئی؟
دس برس کی بچی بھاگ گئی؟ وہ بھی کسی کے ساتھ؟ ارے صاحب کیا کرتے ہو؟ پاکستان کے قانون کو جگانے چلے ہو یہ سب تو سننا پڑے گا۔ کیا ہے صاحب، یہ جنگل کا قانون ہے یہاں انسان نہیں درندے بستے ہیں ۔ یہاں فرشتوں کا کیا کام اور اگر کوئی فرشتہ غلطی سے اس زمین پر اتر بھی آئے تو درندہ صفت اسے مسل دیتے ہیں۔
معصوم باپ اپنی امیدوں کی قبر لے کر واپس لوٹ آیا۔ اس دوران پانچ دن قیامت کے تھے ۔ نہ نیند آتی ہوگی نہ بھوک لگتی ہوگی۔ ننھی فرشتہ کہاں ہے؟ کس حال میں ہے؟ کوئی ہے جو بتائے کوئی ہے جو حوصلہ دے؟ پھر انتظار کی جگہ کبھی نہ ختم ہونے والی اذیت نے لے لی۔
پولیس اسٹیشن کی طرف جاتے ہوئے بھی باپ نے فرشتہ کی سلامتی کی ہی دعائیں کی ہوں گی لیکن ملی تو فرشتہ کی لاش ۔ معصوم کو ظالموں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا، کیا کوئی اتنا ظالم بھی ہو سکتا ہے۔؟
ظالموں کے ظلم کی انتہا صرف معصوم فرشتہ کو مسلنے پر نہیں ہوئی بلکہ ننھی کلی کو درندوں نے ویرانے میں جانوروں کے آگے پھینک دیا ۔ جس طرح درندے فرق نہ کر پائے اسی طرح جانوروں سے بھی فرق نہ ہو پایا۔ یا شاید جانور بھی انسان نما درندوں کی درنگی چھپانا چاہتے تھے۔
فرشتہ کی بے حرمتی اور اس کے ساتھ ہونے والی درندگی پر ہمارا قانون وہی کرے گا جو اب سے پہلے ہزاروں ننھی کلیوں کو روندنے والے درندوں کے ساتھ کیا۔ ہمارا قانون کالا قانون ہے یہاں بیٹیاں گم جائیں تو قانون کے پاس نہ جائیں کیوں کہ وہ تو پہلی ہی جانتے ہیں کہ بیٹیاں بھاگ جاتی ہیں۔
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر ۔
(بشکریہ پاکستان24)