مشترکہ بارڈر پر موجود دہشت گرد دونوں ممالک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں،ایرانی وزیرخارجہ

45 / 100

فوٹو:اسکرین گریب
اسلام آباد:ایران کے وزیرخارجہ حسین امیر اللہیان کا کہنا ہے کہ ایران اور پاکستان دہشت گردوں کو کسی قسم کا موقع نہیں دیں گے، مشترکہ بارڈر پر موجود دہشت گرد دونوں ممالک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ پاک ایران سرحد پر”تیسراملک ” دہشت گردوں کوسہولت فراہم کررہاہے۔

پاکستان اور ایران نے امن اور خوشحالی کے مقاصد کے حصول کے لئے باہمی احترام اور مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اجتماعی نقطہ نظر کی بنیاد پر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

ایرانی وزیرِ خارجہ حسین امیر اللہیان نے پاکستانی ہم منصب جلیل عباس جیلانی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاک ، ایران مذاکرات کے دوران دہشتگردی کیخلاف اقدامات پر گفتگو ہوئی، بارڈر پر موجود تجارتی مراکز کو فعال کرنے پر بھی بات چیت ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ اہم برادرانہ تعمیری اور مضبوط تعلقات ہیں، پاکستان سے جغرافیائی تعلقات بھی اہمیت کے حامل ہیں ، پاکستان کی سکیورٹی ہمارے لیے مقدم ہے، ایران اور پاکستان کے عوام کو ایک ہی قوم سمجھتے ہیں۔

ان کامزید کہناتھا کہ ایران اور پاکستان دہشت گردوں کو کسی قسم کا موقع نہیں دیں گے، دہشت گردوں نے ایران کو بہت نقصان پہنچایا ہے، مشترکہ بارڈر پر موجود دہشت گرد دونوں ممالک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

اس موقع پر نگران پاکستانی وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ایرانی ہم منصب اور ان کے ہمراہ وفد کو پاکستان میں خوش ا?مدید کہتے ہیں ، ایران سے دیرینہ ثقافتی، مذہبی اور برادرانہ تعلقات ہیں، ایرانی وفد سے تفصیلی باہمی مفاد کے مختلف امور پر بات چیت ہوئی ہے۔

نگراں وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے مضبوط تعلقات دونوں ملکوں کی ترقی کے لیے اہم ہیں، پاکستان ایران سے تعلقات اور مختلف شعبوں میں وسعت دینے کا خواہاں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائیوں کی ضرورت ہے، دہشت گردوں کے خلاف ایک مضبوط لائحہ عمل ضروری ہے، دہشت گردی کا مسئلہ دونوں ممالک کا مشترکہ چیلنج ہے، سرحدی علاقوں میں معاشی سرگرمیوں کا فروغ ضروری ہے۔

جلیل عباس جیلانی نے مزید کہا کہ بارڈر مارکیٹوں میں تجارتی سرگرمیاں وقت کی ضرورت ہیں، اعلیٰ سطح کا لائحہ عمل پاکستان اور ایران کے مفاد میں ہے۔

نگران وزیرِ خارجہ نے دوطرفہ تعلقات مثبت انداز میں آگے بڑھانے، مکالمے اور تعاون کی اہمیت پرزوردیا۔

Comments are closed.