ممبرزجانبدارہیں جسٹس مظاہر نقوی کاجوڈیشل کونسل شوکازنوٹس پر اعتراض

52 / 100

فوٹو: فائل

اسلام آباد: ممبرزجانبدارہیں جسٹس مظاہر نقوی کاجوڈیشل کونسل شوکازنوٹس پر اعتراض ، ان کا کہنا ہےجوڈیشل کونسل میں شامل ممبران میرے بارے میں جانبدار ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم اختر افغان آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کا حصہ ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے جواب میں کہاجن آڈیو لیکس کی انکوائری کے لیے کمیشن بنایا گیا وہی میرے خلاف شکایات کا بھی حصہ ہیں،آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے ممبران کو میرے خلاف جوڈیشل کمیشن کا حصہ نہیں ہونا چاہئے۔

انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس نعیم اختر کو میرے خلاف کونسل کا حصہ نہیں ہونا چاہئے، سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر نقوی نے شوکاز نوٹس کے جواب میں سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر اعتراض اٹھا دیا۔

بطور جج سپریم کورٹ تعیناتی کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہرویز مشرف فیصلے کے سبب جوڈیشل کمیشن میں میری تعیناتی کی مخالفت کی،تین اپریل 2023 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق نے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھ کر میرے خلاف کارروائی چلانے کی بات کی۔

انھوں نے کہا کہ شکایات میں مجھ پر مبینہ آڈیو کا بھی حوالہ دیا گیا،مبینہ آڈیو کی کبھی تصدیق نہیں کرائی گئی، مبینہ آڈیوز کیلئے کمشین تشکیل دیا گیا جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم افغان شامل تھے۔

جواب میں جسٹس مظاہر نقوی نے موقف اپنا یا ہے کہ دونوں معزز جج صاحبان کو میرے خلاف شکایت نہیں سننی چاہیے،جسٹس سردار طارق مسعود نے میرے خلاف شکایات پر رائے دینے میں جان بوجھ کر تاخیر کی۔

کہا کہ جسٹس قاضی فائز کیخلاف ریفرنس کی کھلی عدالت میں سماعت کے دوران جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن پر اعتراض کیا گیا، دونوں جج صاحبان عدالتی بینچ سے الگ ہو گئے تھے،میرے خلاف لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔

شکایات و دیگر مواد تک رسائی نہ ہونے کے سبب میں مفلوج ہوں،مجھے مکمل ریکارڈ فراہم کیا جائے، میرے خلاف جوڈیشل کونسل میں بھیجی گئی شکایات سیاسی مقاصد کے تحت ہیں،میرے خلاف شکایات میں شفافیت کا فقدان ہے اور غیر قانونی ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا شفاف ٹرائل جج کا حق ہے، مجھے جوڈیشل کونسل کا شوکاز نوٹس جاری کردہ بنیادی حقوق کے منافی ہے،جوڈیشل کونسل کی کارروائی کی پریس ریلیز میری رائے کے بغیر جاری کرنے سے میرے بنیادی حقوق متاثر ہوئے۔

یہ بھی کہا کہ جانبدار سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جانبدار ہے جس کا جواب نہیں دیا جاسکتا،میرے خلاف کارروائی امتیازی سلوک اور آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میری سپریم کورٹ تعیناتی سمیت متعدد فیصلوں کی مخالفت کی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق نے میرے خلاف کارروائی کے لیے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھا تھا، جوڈیشل کونسل نے 27 اکتوبر کی پریس ریلیز میری رضا مندی کے بغیر جاری کی۔

انہوں نے اعتراض اٹھایا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی پریس ریلیز میرے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، پریس ریلیز کا مقصد میرا میڈیا ٹرائل اور عوام کی نظر میں تضحیک کرنا تھی، سپریم جوڈیشل کونسل اکثریت سے صرف حتمی رائے صدرِ مملکت کو بھجوا سکتی ہے۔

جسٹس مظاہر کا اعتراض ہے کہ جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی صرف اتفاق رائے سے ہی ممکن ہے، آئین سپریم جوڈیشل کونسل کو رولز بنانے کی اجازت ہی نہیں دیتا، چیف جسٹس اورجسٹس سردار طارق جوڈیشل کونسل رولز کو پہلے ہی غیرآئینی کہہ چکے ہیں۔

جسٹس مظاہر کا اعتراض ہے کہ شوکاز نوٹس میں اپنا مؤقف تبدیل کرنے کی دونوں ججز نے کوئی وجہ نہیں بتائی، شکایات پر سپریم جوڈیشل کونسل میں بحث ہوئی نہ کسی سے معلومات لی گئیں، جسٹس سردار طارق کے کیس میں کونسل نے شکایت کنندہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا اور شواہد مانگے۔

میرے کیس میں شکایت کنندہ کو بلایا نہ ہی مزید معلومات فراہم کرنے کا کہا گیا، جو موقع جسٹس سردار طارق کو کونسل کی جانب سے دیا گیا وہ مجھے نہیں ملا، شوکاز نوٹس میں کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا، شوکاز کے ساتھ منسلک 10 شکایات میں غیر سنجیدہ الزامات ہیں جن کے شواہد بھی موجود نہیں۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اعتراض اٹھایا ہے ک یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ میرے خلاف کارروائی سیاسی ایما پر ہو رہی ہے، میرے خلاف کارروائی غیر قانونی اور نامناسب ہے۔

انہوں نے اعتراض کیا ہے کہ جسٹس سردار طارق مسعود پہلے ہی میرے خلاف ریفرنس پر قانونی رائے دے چکے ہیں، جسٹس سردار طارق مسعود نے جسٹس عرفان سعادت کی حلف برداری کی تقریب میں صحافیوں سے ملاقات میں میرے بارے میں تضحیک آمیز گفتگو کی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے ریفرنس سے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس سردار طارق اعتراض پر خود الگ ہو گئے تھے،انہوں نے استدعا کی ہے کہ میرے خلاف تمام شکایات فضول اور مفروضوں پر مبنی ہونے کی بنیاد پر مسترد کی جائیں۔

واضح رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے27 اکتوبر کے اجلاس میں انہیں شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو 10 نومبر تک جواب جمع کرانے کا کہا گیا تھا۔

Comments are closed.