آئین کا آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہوں گے، چیف جسٹس

50 / 100

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت شروع ہو گئی، سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا نو رکنی لارجر بینچ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، عدالت نے سماعت کے آغاز میں کہا کہ ’آئین الیکشن سے متعلق ایک ٹائم کا تعین کرتا ہے۔‘

سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کو بھی نوٹس جاری کر دیے ہیں۔

سپریم کورٹ نے صدر اور چاروں صوبوں کے گورنرز کو بھی نوٹسز جاری کر دیے۔پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کو بھی نوٹسز جاری کر دیے گئے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہوں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ بہت سے نئے نکات آگئے ہیں جن کی تشریح ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آئین کو دیکھنا ہے کہ اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے؟

ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے دوران سماعت کہا کہ ازخود نوٹس میں اگر فیصلہ انتخابات کرانے کا آتا ہے تو سب کو فائدہ ہوگا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو سب سیاسی جماعتیں فائدہ حاصل کریں گی۔

ایڈووکیٹ شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ ’یہ ٹائم باونڈ کیس ہے اس میں انتخابات کرانے کا ایشو ہے۔‘جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’میرے خیال میں تمام سیاسی جماعتوں کو سننا چاہیے۔ جمہوریت میں سیاسی جماعتیں حکومت بناتی ہیں۔‘

وکیل شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں اور حکومت کو قانونی موقف دینا چاہیے اس لیے بلایا جاسکتا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’یہ ایک اہم ایشو ہے۔ اس کا مقصد ٹرانسپرنسی اور عدالتوں پر اعتماد کی بات ہے۔‘

ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریماکس دیے ہیں کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گےاور کیس کی تفصیلی سماعت پیر کو کریں گے۔

اس سے پہلے اٹارنی جنرل کی کیس کے لیے وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو کل کے لیے تیاری مشکل ہو پائے گی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’میری ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اس کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی بلایا گیا ہے جو کہ فریق نہیں ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے سپیکر کی درخواستیں ہیں، ’یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالت کے پاس وقت کم ہے، صدر پاکستان نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا۔‘چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت نے تین معاملات کو سننا ہے۔

بییرسٹر علی ظفر روسٹرم پر آگٸے اور کہا کہ ’ہم صدر پاکستان سے متعلق چیزیں ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں۔‘

دوسری طرف پاکستان بار کونسل نے از خود نوٹس سننے کے لیے سپریم کورٹ کے 9 سینیئر ترین ججز پر مشتمل بینچ بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

پاکستان بار کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس سردار طارق مسعود کو بینچ میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
’جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے بینچ میں شامل ہونے سے غیر جانبداری کا تاثر آئے گا۔‘

پاکستان بار کونسل کے مطابق ’توقع کرتے ہیں کہ جسٹس مظاہر اکبر نقوی رضاکارانہ طور پر بینچ سے علیحدہ ہو جائیں گے۔

پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلز کے عہدیداران نے ایک اجلاس کے بعد سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔

منگل کو پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے دیگر عہدیداروں کے ہمراہ سپریم کورٹ کے باہر پریس کانفرنس میں کہا کہ ’آڈیو لیکس کے بعد چیف جسٹس سے مطالبہ کیا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جائیں مگر رجسٹرار کی جانب سے کوئی جواب نہ دیا گیا۔‘

الیکشن کمیشن کی جانب سے صدر مملکت کی صدارت میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے کسی مشاورتی عمل میں شامل ہونے کے بعد صدر کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کی آئینی حیثیت کے بارے میں آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر نے آئینی اختیار کا استعمال نہیں کیا۔

واضح رہے صدر عارف علوی نے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 ایک کے تحت نو اپریل بروز اتوار پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کا اعلان کیا ہے۔

20 فروری کو ایوان صدر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق صدر نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایکٹ کے سیکشن 57 دو کے تحت الیکشن کا پروگرام جاری کرے۔

Comments are closed.