سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل جاری رکھنے کی اجازت دے دی

52 / 100

فائل:فوٹو
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل کر دیا۔سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل جاری رکھنے کی اجازت دے دی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہوگا۔

قبل ازیں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کیاتھا۔جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے تھے کہ ہم اس معاملے پر فیصلہ جاری کریں گے جوکہ تھوڑی دیر میں سنایا جائے گا۔
جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بنچ کا حصہ تھے۔

سماعت شروع ہوئی تو جسٹس سردار طارق مسعود نے اعتراضات پر بینچ سے الگ ہونے سے انکار کیا۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ وکلا جسٹس جواد ایس خواجہ کا فیصلہ پڑھ لیں، یہ جج کی مرضی ہے کہ بینچ کا حصہ رہے یا سننے سے معذرت کرے، جواد ایس خواجہ کا اپنا فیصلہ ہے کہ کیس سننے سے انکا کا فیصلہ جج کی صوابدید ہے، میں خود کو بینچ سے الگ نہیں کرتا، معذرت۔

لطیف کھوسہ نے عدالت سے مکالمہ کیا کہ بینچ پر اعتراض ہے، جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کیا آپ کو نوٹس ہوا ہے؟ جب فریقین کو نوٹس ہوگا تب آپ کا اعتراض دیکھیں گے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ بیٹھ کر کیس سن رہے ہیں اس لیے بول رہا ہوں، جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کیا ہم کھڑے ہوکر کیس سنیں؟ بیٹھ کر ہی مقدمہ سنا جاتا ہے۔

فیصل صدیقی نے اعتراض اٹھایا کہ حکومت نجی وکلاء کی خدمات حاصل نہیں کر سکتی، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نجی وکلاء کی خدمات کے لیے قانونی تقاضے پورے کیے ہیں، مناسب ہوگا پہلے درخواست گزاروں کو سن لیا جائے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ ہمیں سنے بغیر معطل نہیں کر سکتی۔

وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ نوٹس سے پہلے ججز پر اعتراض ہو تو اس پر دلائل ہوتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ فریقین کے وکلاء کا اعتراض بے بنیاد ہے، پہلے میرٹس پر کیس سنیں اور نوٹس کے بعد اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ نوٹس ہونے کے بعد اعتراض اٹھانے پر کیس متاثر ہوگا جبکہ وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ جسٹس سردار طارق اپنے نوٹ میں فوجی عدالتوں کی درخواستوں پر رائے دے چکے ہیں۔

جسٹس سردار طارق نے وکلاء سے سوال کیا کہ کس نے اعتراض کیا ہے؟ جس پر وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ اعتراض جواد ایس خواجہ نے کیا ہے۔ جسٹس سردار طارق نے کہا کہ جواد ایس خواجہ کا اپنا فیصلہ ہے کہ جج کی مرضی ہے وہ اعتراض پر بینچ سے الگ ہو یا نا ہو، میں نہیں ہوتا بینچ سے الگ تو کیا کر لیں گے؟

اٹارنی جنرل دوران سماعت غصے میں آ گئے۔ انہوں نے کہا کہ جب نوٹس نہیں تو اعتراض کیسے سنا جا سکتا ہے؟ جنہوں نے اعتراض کیا وہ خود تو عدالت میں نہیں ہیں، بہتر ہے پہلے بینچ اپیلوں پر سماعت کا آغاز کرے۔

عدالت نے اپیلوں پر سماعت کا آغاز کیا اور فریقین کے وکلاء کو نشستوں پو بیٹھنے کی ہدایت کی۔ شہداء فاونڈیشن کے وکیل شمائل بٹ نے اپیل پر دلائل کا آغاز کیا اور بیرسٹر اعتزاز احسن بھی روسٹم پر آگئے۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ اعتراض پر فیصلہ پہلے ہونا چاہیے کہ آپ نے بینچ میں بیٹھنا ہے یا نہیں، جس پر جسٹس سردار طارق نے کہا کہ میں نہیں کر رہا سماعت سے انکار آگے چلیں۔

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے اپیل کندہ شہدا فورم کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے تفصیلی فیصلے کے بعد درخواست میں ترمیم بھی کرنا ہوگی۔

جسٹس سردار طارق نے اٹارنی جنرل کو دلائل شروع کرنے کی ہدایت کی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں پہلے خواجہ حارث کو وقت دینا چاہتا ہوں۔

خواجہ حارث وزارت دفاع کی جانب سے روسٹرم پر آئے اور دلائل دیے۔ خواجہ حارث نے ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ دو لائن میں ایک قانون کی پوری سیکشن کو کالعدم قرار دیا گیا۔

خواجہ حارث نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے اپنے فیصلوں میں پہلے ان دفعات کو برقرار رکھا گیا تھا، ایف بی علی کیس میں ان دفعات کو برقرار رکھا گیا اور ایف بی علی کیس میں 8 رکنی بینچ کا فیصلہ تھا، حالیہ فیصلے میں پانچ رکنی بینچ نے چار ایک کی اکثریت سے ان دفعات کو کالعدم قرار دیا اور اکیسویں آئینی ترمیم کیس میں بھی ان دفعات کو برقرار رکھا گیا۔

جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ فیصلے میں آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار دے دیا گیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی شقیں کس آئین کی شق کے تحت غیر آئنی ہے، فیصلہ اس بارے میں خاموش ہے۔ ایف بی علی کیس میں فوجی ایکٹ کی شقوں کو برقرار رکھا گیا اور سپریم کورٹ میں 17 رکنی فل کورٹ نے بھی اکیسیویں ترمیم کیس میں ایف بی علی کیس کو درست قرار دیا۔ سپریم کورٹ کا ایک نو رکنی بینچ فیصلے میں کہہ چکا ہے کہ جرم کا تعلق فوج سے ہو تو فوجی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔

Comments are closed.