صدر کے بل واپس بھیجتے وقت کسی تحریر، یا رائے کی ضرورت نہیں ہوتی، بیرسٹر سیف

50 / 100

فائل: فوٹو

پشاور: قانون بیرسٹر سیف نے واضح کیا ہےکہ صدر کے بل واپس بھیجتے وقت کسی تحریر، یا رائے کی ضرورت نہیں ہوتی، بیرسٹر سیف کا کہنا ہے آرٹیکل 75(1) کے تحت صرف پیغام دینا ہوگا کہ بل واپس کیا جا رہا ہے۔

بیرسٹر سیف نے سوشل میڈیا پر بیان میں کہا کہ قانون سازی کے لیے صدر مملکت کی منظوری ضروری ہے، صدر آرٹیکل 75(1) کے تحت بل کو منظور کیے بغیر واپس بھیج سکتے ہیں.

انھوں نے کہا کہ بل واپس بھیجتے وقت کسی تحریری تبصرے یا رائے کی ضرورت نہیں بلکہ آرٹیکل 75(1) کے تحت صرف پیغام دینا ہوگا کہ بل واپس کیا جا رہا ہے۔

بیرسٹرسیف نے کہا کہ بل مقررہ مدت کے بعد خودبخود قانون نہیں بن سکتا، خودبخود قانون بننا مشترکہ پارلیمانی منظوری کے بعد کا عمل ہے، صدر کی بل کی منظوری سے انکارکے بعد کسی مزید تحریری وضاحت کی ضرورت نہیں رہی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ترامیم کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہی، بل کو اب دوبارہ پارلیمانی عمل سے گزارنا پڑے گا جب کہ سپریم کورٹ کو قانون سازی کے آئینی عمل کی پامالی کا نوٹس لینا چاہیے.

قانونی امورکے ماہر نے کہا صدر کو اندھیرے میں رکھ کر قانون کا گزٹ نوٹیفکیشن قانون کا مذاق ہے، یہ فوجداری قانون ہے جس کا اطلاق ماضی کے افعال و جرائم پر نہیں ہوسکتا۔

بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ یہ دونوں ترامیمی قوانین انسانی حقوق سے متصادم ہونے کے باعث آرٹیکل 8 کےمنافی ہیں، ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج ہوچکے ہیں.

ان کا کہنا ہے فیصلہ آنے تک قانون نہیں بن سکتے، اس قانون سازی کے پیچھے بدنیتی کار فرما ہے، صدر پاکستان کے عہدے پر قبضے کی سازش کی جا رہی ہے۔

Comments are closed.