باجوڑ حملہ ایک بڑی انٹیلیجنس ناکامی ہے، ادارے کہاں ہیں؟ مولانا فضل الرحمان

48 / 100

فوٹو:فائل 

اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ باجوڑ جیسے واقعات کے ذریعے اُن کی جماعت کا عوام سے رابطہ توڑنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاہم اس نوعیت کے اقدامات سے نہ تو پہلے ان کی پارٹی کا راستہ روکا جا سکا ہے اور نہ ہی یہ آج ممکن ہو گا۔

جے یو آئی کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اس نوعیت کے حربوں سے ان کی جماعت کو اپنی فکر اور نظریے سے نہیں ہٹایا جا سکتا ہے۔

انھوں نے سوال کیا ہے کہ کیا ہمارے ریاستی ادارے صرف اس بات کے لیے رہ گئے ہیں کہ وہ کسی غریب مولوی کو تھانے میں لے آئیں اور ان پر الزمات لگائیں کہ تمہارے پاس کسی نے کھانا کھایا یا چائے پی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں 26 انٹیلیجنس کے ادارے ہیں، مگر وہ غائب کہاں ہیں۔

ان کا کہنا ہے باجوڑ حملہ ایک بڑی انٹیلیجنس ناکامی ہے، ادارے کہاں ہیں؟ مولانا فضل الرحمان نے کہا ’کیا یہ مجھے اعتماد دلا سکتے ہیں کہ ریاست میری جان کی حفاظت کرسکتی ہے یا نہیں؟ یا ریاست صرف مجھ سے ٹیکس وصول کرے گی اور میری جان ومال کی حفاظت نہیں کرے گی۔

مولانا فضل الرحمان کا مزید کہنا ہےکہ مجھے شکایت ہے کہ میں نے ریاست کو بچانے کے لیے قربانیاں دی ہیں، میں نے اس ریاست کی بقا اور استحکام کے لیے جدوجہد کی ہے، میں ریاست کے شانہ بشانہ کھڑا رہا ہوں لیکن اکیلے ایک جماعت کیا کر سکتی ہے، پوری قوم ریاستی اداروں کی طرف دیکھ رہی ہے۔’

سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ باجوڑ حملے کے تناظر میں ان کی جماعت پہلے قبائلی زعما کا جرگہ اور پھر جے یو آئی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس بلانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ موجودہ صورتحال پر غور کیا جا سکے۔

خیال رہے کہ خار باجوڑ میں جے یو آئی (ف) کے ورکرز کنونشن میں اتوار کو خودکش حملہ ہوا تھا جس میں 54 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔

اس واقعے کے وقت مولانا فضل الرحمان دبئی میں موجود تھے تاہم یہ اطلاع ملنے کے بعد وہ اپنا دورہ مختصر کر کے پاکستان واپس پہنچے ہیں جہاں کل سارا دن وزیر اعظم سمیت حکومتی حکام اور سفرا تعزیت کرتے رہے۔

دوسری طرف افغانستان میں برسراقتدار طالبان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے اس خودکش حملے کی مذمت کی گئی ہے جبکہ ابتدائی طور پر داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ، تاہم حکام کی جانب سے اس حوالے سے ابھی تک کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔

Comments are closed.