فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائلز کے خلاف کیس ، فل کورٹ بنانے کی حکومتی درخواست مسترد

47 / 100

فوٹو:فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف کیس میں فل کورٹ بنانے کی حکومتی درخواست مسترد کردی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا سوال ہے ، فوجی عدالتوں کے فیصلوں میں وجوہات نہیں بتائی جاتیں ، فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے دوران عام شہریوں کو رسائی نہیں ہوتی۔

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ۔

صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ میں لیاقت حسین کیس 1999 سے اصول طے ہے کہ آرٹیکل 83 اے کے تحت فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا، عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں، کہ ملزمان کا براہِ راست تعلق ہو تو ہی فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے، سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق تعلق جوڑنے اور آئینی ترمیم کے بعد ہی سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے، اگر ملزمان کا تعلق ثابت ہوجائے تو پھر کیا ہوگا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیر ٹرائل کیا گیا تھا۔

عابد زبیری نے دلائل دیے کہ بنیادی نقطہ یہ ہے کہ جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسے جوڑا جائے گا، جو سویلینز افواج کی تحویل میں ہیں ان کا فوجی ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہو سکتا، پہلے سویلنز کا فوج یا دفاع کیخلاف تعلق جوڑنا ضروری ہے، اگر ملزمان کا فوج یا دفاع سے کوئی تعلق ہے تو پھر فوجی ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم ناگزیر ہے، ملزمان کو سزاوں کیخلاف ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ کے مطابق سویلنز کو آئینی تحفظ ہے اور فوجی ٹرائل کیلئے دفاع یا افواج کیخلاف ملزمان کا تعلق جڑنا ضروری ہے۔

عابد زبیری نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں یہ ٹرائل آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہے، کچھ ملزمان کو چارج کیا جارہا ہے کچھ کو نہیں، اگر آپ نے خصوصی ٹرائل کرنا ہے تو آئینی ترمیم سے خصوصی عدالت بنانا ہی ہو گی، فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلانے والے جوڈیشل نہیں،ایگزیکٹیو ممبران ہوتے ہیں، ٹرائل کے بعد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں جوڈیشل ری ویو ملنا چاہیے، 21ویں اور 23ویں ترامیم خاص مدت کیلئیتھیں، 21ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ نے اجازت تو دی لیکن سپریم کورٹ ہائیکورٹ میں ریویو کا اختیار بھی دیا۔

جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں پہلے پولیس گرفتار کر کے عام عدالتوں میں فرد جرم لگوائے پھر معاملہ ملٹری کورٹس جائے؟ کیس پہلے عام عدالت میں چلے پھر ملٹری کورٹس جاسکتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ لیاقت حسین کیس میں کہا گیا ملٹری اتھارٹیز تحقیقات کرسکتی ہیں سویلین کا ٹرائل نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کس پر آرمی ایکٹ لگے گا کس پر نہیں؟۔ عابد زبیری نے جواب دیا کہ تحقیقات کرنا پولیس کا کام ہے، پولیس ہی فیصلہ کرے گی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ سویلین پر فوجی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری کے دلائل کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میری چیف جسٹس پاکستان سے استدعا ہے کہ فل کورٹ تشکیل دیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ نے خود ایک جج پر اعتراض اٹھایا، پھر آپ فل کورٹ بنانے کی استدعا کیسے کرسکتے ہیں، جب مقدمے کا آغاز ہوا اس وقت فل کورٹ بنانے کی بات کیوں نہیں کی، پھر آپ نے ایک جج پر اعتراض کردیا، اب آپ فل کورٹ بنانے کی استدعا کررہے ہیں۔

اس پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ دستیاب ججز پر مشتمل لارجر بنچ بنایا جائے۔ جسٹس منیب اختر نے جواب میں کہا کہ تمام دستیاب ججز اس وقت کیس سن رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے بتایا کہ جب یہ مقدمہ سپریم کورٹ آیا اس وقت تمام ججز موجود نہیں تھے، جو ججز اسلام آباد میں موجود تھے سب سے بنچ میں شامل ہونے کا کہا، 2ججز نے کہا وہ بنچ میں نہیں بیٹھیں گے، 3سماعتوں کے وفاق نے ایک جج جسٹس منصور پر اعتراض کیا، جو میرے لئے حیران کن تھا، اب فل کورٹ نہیں بن سکتا۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے اہم ریمارکس دیے کہ سویلینز کا ایسا ٹرائل نہیں ہوسکتا جو آئین کے مطابق نہ ہو، اس ملک کے ہر شہری کو یہ تشویش ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل نہیں ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فوجی قانون عام قانون نہیں بلکہ بہت سخت قانون ہے، جب تک مقدمہ زیر سماعت ہے فوجی تحویل میں موجود سویلینز کو وہ تمام سہولیات دیں جو سویلین تحویل میں میسر آتی ہیں، 9 مئی کا واقعہ بہت سنجیدہ جرم ہے، کوئی بھی ملوث ملزمان کو چھوڑنے کی باتیں نہیں کرر ہا، مگر ٹرائل قانون کے مطابق ہونا چاہیے، درخواست گزار کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا ہے چاہے تو ملزمان کا ٹرائل انسدادِ دہشتگردی عدالت میں کردیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا سوال ہے ، فوجی عدالتوں کے فیصلوں میں وجوہات نہیں بتائی جاتیں ، فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے دوران عام شہریوں کو رسائی نہیں ہوتی ، درخواست گزاروں نے کہا ملٹری کورٹس میں خامیاں ہیں سویلینز کا ٹرائل وہاں نہیں ہونا چاہیے، مجھے خوشی ہے کہ فوج کی تحویل میں رکھے گئے افراد کی ان کے اہل خانہ سے ملاقات کرائی گئی۔

وزیر دفاع کے وکیل عرفان قادر نے چیف جسٹس اور دیگر دو سینئر ججز پر اعتراض اٹھا دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں چیف جسٹس پاکستان اور بینچ میں موجود دو سینئر ججز کی بینچ سے علیحدگی پر دلائل دوں گا۔

Comments are closed.