سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے دیا، فوری رہائی کا حکم

54 / 100

فائل:فوٹو

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے دیا، فوری رہائی کا حکم ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا بھی حکم دیا ، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان ایک گھنٹے میں عدالت پیش کرنے کا حکم  پر عدالت پیش کیا گیا۔

 سپریم کورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کو گزشتہ روز چیلنج کیا گیا تھا، پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا عمران خان کی گرفتاری قانونی قرار دینے کا حکم کالعدم قرار دیا جائے اور عمران خان کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا جائے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اپنی گرفتاری کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت جاری ہے، عدالت نے کہا ہے کہ عمران خان احاطہ عدالت میں داخل ہوچکے تھے، نیب نے انہیں گرفتار کرکے قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا؟

 چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔

عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ عمران خان نیب کیس میں ضمانت کروانے کے لیے ہائی کورٹ آئے تھے، عمران خان بایو میٹرک کروا رہے تھے کہ رینجرز نے ہلہ بول دیا، دروازہ اور کھڑکیاں توڑ کر عمران خان کو گرفتار کیا گیا جب کہ بایو میٹرک کروانا عدالتی عمل کا حصہ ہے، عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور گرفتاری پر تشدد ہوا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق جو مقدمہ مقرر تھا وہ شاید کوئی اور تھا، عدالتی حکم کے مطابق درخواست ضمانت دائر ہوئی تھی لیکن مقرر نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا بایو میٹرک سے پہلے درخواست دائر ہو جاتی ہے؟ اس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ بایو میٹرک کے بغیر درخواست دائر نہیں ہوسکتی۔

جسٹس اطہر نے کہا کہ پہلی بات یہ ہے کہ عمران خان احاطہ عدالت میں داخل ہوچکے تھے، ایک مقدمہ میں عدالت بلایا تھا، دوسرا دائر ہو رہا تھا، کیا انصاف تک رسائی کے حق کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ یہی سوال ہے کہ کسی کو انصاف کے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟ کیا مناسب نہ ہوتا نیب، رجسٹرار سے اجازت لیتا؟ نیب نے قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا؟

اس سے قبل عمران خان کی جانب سے گرفتاری سے متعلق اضافی دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کروا دی گئی ہیں۔ عدالت عظمیٰ میں نیب کال اپ نوٹس، ڈی جی نیب کو لکھے خط کی کاپی جمع کروائی گئی ہے۔ علاوہ ازیں چیئرمین نیب کے خلاف دائر رٹ پٹیشن اور بیان حلفی بھی عدالت میں جمع کروا دیا گیا ہے۔

عمران خان کی جانب سے دائر درخواست میں موٴقف اختیار کیا گیا ہے کہ مجھے بائیومیٹرک تصدیق کے دوران غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔ میرے وکلا گوہر علی اور علی بخاری کے ساتھ دورانِ گرفتاری بد تمیزی کی گئی۔ میرے وکلا کی آنکھوں پر زہریلا اسپرے پھینکا گیا۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ انصاف کے تقاضوں کے لیے اضافی دستاویز کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ معاملہ عدلیہ کے احترام کا ہے نیب نے ایک ملزم کو سپریم کورٹ کی پارکنگ سے گرفتار کیا تھا جس پر عدالت نے گرفتاری واپس کرا کر نیب کے خلاف کارروائی کی تھی، نیب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ا?ئندہ ایسی حرکت نہیں ہوگی، نیب کی یقین دہانی سے 9 افسران توہین عدالت سے بچ گئے تھے۔

 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمران خان کو کتنے لوگوں نے گرفتار کیا؟ جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ 80 سے 100 لوگوں نے گرفتار کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 100 لوگوں کے عدالتی احاطے میں داخلے سے خوف پھیل جاتا ہے، رینجرز اہل کار عدالتی احاطے میں ا?ئے تو احترام کا کہا گیا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت میں سرنڈر کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے تو کوئی عدلیہ پر اعتماد کیوں کرے گا؟ سپریم کورٹ سے کیا چاہیے؟ جس پر عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ عمران خان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وارنٹ کی قانونی حیثیت کا نہیں اس کی تعمیل جائزہ لیں گے۔ جسٹس اطہر نے کہا کہ عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے کے عمل کو سبوتاڑ نہیں کیا جاسکتا۔

سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا کہ عمران خان پر حملہ ہوا اور سیکیورٹی بھی واپس لے لی گئی حالاں کہ عمران خان دہشت گردوں کے ریڈار پر تھے اس پر جسٹس اطہر نے کہا کہ عدالت صرف انصاف تک رسائی کے حق کا جائزہ لے گی۔

سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا کہ گرفتاری کے وقت نیب کا تفتیشی افسر بھی موجود نہیں تھا، عمران خان کو ججز گیٹس سے پہنچایا گیا، اسد عمر کو ہائی کورٹ سے گرفتار کیا گیا، عمران خان کی گرفتاری کے بعد معلوم ہوا کہ یکم مئی کو وارنٹ جاری ہوئے تھے، سیکریٹری داخلہ نے خود عدالت کو بتایا کہ وارنٹ ابھی تک عمل درآمد کے لیے نہیں موصول ہوئے۔

جسٹس اطہر نے کہا کہ نیب کئی سال سے منتخب نمائندوں کے ساتھ یہ حرکتیں کررہا ہے، وقت آگیا ہے کہ نیب کے یہ کام ختم ہوں، سیاسی قیادت سے عدالتی پیشی پر بھی اچھے ردعمل کی توقع کرتے ہیں۔

 

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ گرفتاری سے جو ہوا اسے رکنا چاہیے تھا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ غیر قانونی اقدام سے نظر چرائی جاسکے، ایسا فیصلہ دینا چاہتے ہیں جس کا اطلاق ہر شہری پر ہوگا، انصاف تک رسائی ہر ملزم کا حق ہے، میانوالی کی ضلعی عدالت پر آج حملہ ہواہے معلوم کریں یہ کس نے کیا ہے؟ ضلعی عدالت پر حملے کا سن کر بہت تکلیف ہوئی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا نیب کے نوٹسز کا جواب دیا گیا تھا؟ جس پر عمران خان کے وکیل نے اثبات میں جواب دیا کہ نیب نوٹسز کا جواب دیا گیا تھا، قانون کے مطابق انکوائری کی سطح پر گرفتاری نہیں ہوسکتی اور انکوائری مکمل ہونے کے بعد رپورٹ ملزم کے وکیل کو دینا لازمی ہے۔

جسٹس مظہر نے سوال کیا کہ کیا عمران خان شامل تفتیش ہوئے تھے؟ وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ عمران خان نے نوٹس کا جواب نیب کو بھجوایا تھا، نیب کا نوٹس غیر قانونی تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب وارنٹ کا نہیں تعمیل کروانے کے طریقہ کار کا اصل مس?لہ ہے، جسٹس مظہر نے کہا کہ نیب وارنٹ تو عمران خان نے چیلنج ہی نہیں کیے تھے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قانون پر عمل کی بات سب کرتے ہیں لیکن خود عمل کوئی نہیں کرتا، سب کی خواہش ہے کہ دوسرے قانون پر عمل کرے، یہ بات واضح ہے کہ عمران خان نے نیب نوٹس پر عمل نہیں کیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ نیب نوٹس کا مطلب ہوتا ہے کہ متعلقہ شخص ملزم تصور ہوگا، کئی لوگ نیب نوٹس پر ہی ضمانت کرا لیتے ہیں، ریکارڈ کے مطابق عمران خان نے مارچ میں موصولہ نیب نوٹس کا جواب مئی میں دیا اس پر وکیل عمران خان نے کہا کہ عمران خان کو ایک ہی نیب نوٹس ملا۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس محمد علی مظہر قانون پر عمل درآمد کی بات کر رہے ہیں، اصل معاملہ انصاف تک رسائی کے حق کا ہے۔

پراسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ عدلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں اس پر جسٹس اطہر بولے کہ نیب نے کوئی سبق نہیں سیکھا، نیب پر سیاسی انجنیرنگ سمیت کئی کاموں کا الزام لگتا ہے، کیا نیب نے گرفتاری کے لیے رجسٹرار کی اجازت لی تھی؟

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ وارنٹس کی تعمیل کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا، انہوں نے عمل درآمد کروایا اس پر جسٹس اطہر نے کہا کہ کیا عدالتی کمرے میں عمل درامد وزارت داخلہ نے کیا؟ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مجھے حقائق معلوم نہیں، آج ڈیڑھ بجے ہی تعینات ہوا ہوں۔

جسٹس اطہر نے کہا کہ کیا نیب نے عدالت کے اندر گرفتار کا کہا تھا؟ عمران خان کو کتنے نوٹس جاری کیے تھے؟ اس پر نیب نے کہا کہ عمران خان کو صرف ایک نوٹس جاری کیا گیا۔ جسٹس اطہر نے کہا کہ بظاہر نیب کے وارنٹ قانون کے مطابق نہیں، کیا وارنٹ جاری ہونے کے بعد نیب نے عمران خان کی گرفتاری کی کوشش کی گئی؟

چیف جسٹس نے کہا کہ یکم کو وارنٹ جاری ہوئے اور 9 کو گرفتاری ہوئی، 8 دن تک نیب نے خود کیوں کوشش نہیں کی؟ کیا نیب عمران خان کو عدالت سے گرفتار کرنا چاہتا تھا؟ وزارت داخلہ کو 8 مئی کو خط کیوں لکھا گیا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب نے وارنٹ کی تعمیل کے لیے پنجاب حکومت کو کیوں نہیں لکھا؟ نیب نے ملک کو بہت تباہ کیا ہے۔ اس پر نیب کے افسر نے کہا کہ عمران خان کا کنڈکٹ بھی دکھیں، ماضی میں مزاحمت کرتے رہے، نیب کو جانوں کے ضیاع کا بھی خدشہ تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے بقول وارنٹ کی گرفتاری کا طریقہ وفاقی حکومت نے خود طے کیا تھا، کیا نیب کا کوئی افسر گرفتاری کے وقت موجود تھا؟ عمران خان کو گرفتار کس نے کیا تھا۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد کے مطابق انہوں نے وارنٹ کی تعمیل کرائی۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق پولیس نے وارنٹ کی تعمیل کرائی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا عدالتی حکم کے مطابق پولیس کارروائی کی نگرانی کررہی تھی؟ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ رینجرز نے پولیس کے ماتحت گرفتاری کی تھی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ رینجرز کے کتنے اہل کار گرفتاری کیلئے موجود تھے۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ رینجرز اہل کار عمران خان کی سیکیورٹی کیلئے موجود تھے، نیب نے وارنٹ کی تعمیل سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے جب کہ کسی قانون کے تحت رجسٹرار سے اجازت لینے کی پاپندی نہیں تھی۔

علاوہ ازیں سماعت سے قبل پولیس نے فواد چوہدری کی اہلیہ حبا چوہدری کو سپریم کورٹ جانے سے روک دیا اور انہیں انٹری پاس جاری کرنے سے انکار کردیا۔ حبا چوہدری کا کہنا تھا کہ میرے شوہر آج کی سماعت کے پٹیشنر ہیں، مجھے اندر جانے دیاجائے ، جس پر پولیس نے جواب دیا کہ اْوپر سے آرڈر ہیں آپ کو پاس جاری نہیں ہوگا۔ جس پر حبا چوہدری اور پولیس کے درمیان تکرار بھی ہوئی۔

قبل ازیں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے سپریم کورٹ آمد پر میڈیا سے گفتگو کی۔ ایک صحافی نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے احاطے سے گرفتاری غیر قانونی ہوتی ہے تو کیا ہائی کورٹ سے گرفتاری قانونی ہوگی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ دیکھنا ہے کہ وہاں عمران خان کون سے کیس میں پیش ہوئے تھے؟ دیکھنا ہوگا کہ کیا عمران خان اسلام آباد ہائیکورٹ میں ضمانت کے لیے آئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ عمران خان نے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر انحصارکیا ہے، آج کی سماعت سپریم کورٹ میں ہے، اس کا نتیجہ کیا ہوگا اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

Comments are closed.